مکان یا دکانوں پر زکاۃ واجب ہوگی،یا نہیں؟

Darul Ifta

مکان یا دکانوں پر زکاۃ واجب ہوگی،یا نہیں؟

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی کے پاس اپنے رہنے کے لیے گھر کے علاوہ کوئی مکان یا دوکان کرایہ پر دی ہوئی ہو تو اس کی زکوٰۃ کا کیا مسئلہ ہے جب کہ اس کے پاس روپیہ جمع نہیں ہو رہا ہے، وہ خود کھینچ تان کرکے اپنا گزارا کر رہے ہیں، جو بھی کرایہ میں مل جاتا ہے، خرچے میں آجاتا ہے۔

جواب

مکانات اور دکانوں میں زکوٰۃ تو نہیں، البتہ اس کی آمدنی اگر سونے اور چاندی میں سے کسی بھی ایک نصاب تک پہنچتی ہو او رحاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو تو زکوٰۃ واجب ہے او راگر کسی بھی نصاب تک آمدنی نہیں پہنچتی ہو اور حاجتِ اصلیہ سے فارغ نہ ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
الزکاۃ واجبۃ في عروض التجارۃ کائنۃ ما کانت إذا بلغت قیمتہا نصابا من الورق أو الذہب . (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، فصل في العروض: ١/١٩٥، شرکۃ علمیۃ)
ولیس في دور السکنی وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ؛ لأنہا مشغولۃ بالحاجۃ الأصلیۃ ولیست بنامیۃ أیضا وعلی ہذا کتب العلم لأہلہا وآلات المحترفین لما قلنا.(الھدایۃ، کتاب الزکاۃ ١/١٨٦، شرکۃ علمیۃ)
وفي التنویر: ولا في ثیاب البدن وأثاث المنزل ودور السکنی ونحوہا.
وفي الرد: قولہ: (ونحوھا) أي: کثیاب البدن الغیر المحتاج إلیھا وکالحوانیت والعقارات.(رد المحتار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٦٥،سعید)
(وکذا في الھندیۃ، کتاب الزکوۃ، الباب الأول: ١/١٧٢، رشیدیۃ)
ومن کان علیہ دین یحیط بمالہ فلا زکاۃ علیہ، وإن کان مالہ أکثر من دینہ: زکی الفاضل إذا بلغ نصابا؛ لفراغہ عن الحاجۃ الأصلیۃ والمراد بہ: دین لہ مطالب من جہۃ العباد. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ: ١/١٨٦، شرکۃ علمیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer