معتکف کا مسجد سے بغیر ضرورت کے باہر نکلنا

Darul Ifta

معتکف کا مسجد سے بغیر ضرورت کے باہر نکلنا

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
۱……معتكف كىلئے مسجد سے نكلنا بغير ضرورت كے اس كى مقدار كتنی ہے؟ گرمی کی وجہ سے مسجد کے حدود سے نہانے کے لئے باہر نکلنا جائز ہے کہ نہیں؟ اگر نکل جائے تو کیا اعتکاف ٹوٹ گیا اور باقی ماندہ ایام پورے کرنے ہوں گے کہ نہیں؟
۲……29 ویں شب کو شک ہوگیا کہ کل عید ہے یا 30واں روزہ ہے تو تحقیق کرنے کے لئے مسجد سے باہر مولوی کے پاس جانا معتکف کے لئے جائز ہے کہ نہیں ؟ اگر نکل گیا ہو کیا حکم ہے؟

جواب

۱……واضح رہے کہ معتکف بغیر کسی عذر کے ایک لمحہ بھی مسجد کی حدود سے نکل گیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا اور اس دن کی قضاء لازم ہوگی نیزگرمی دور کرنے کی نیت سے مسجد کی حدود سے باہر نکل کر غسل کرنا جائز نہیں۔
۲……معتکف کے لئے مسجد کی حدود سے باہر نکلنا (خواہ تحقیق کے لئے ہو یا کسی اور غرض کے لئے) کسی صورت میں جائز نہیں، پھر اگر عید کا چاند نظر آگیا ہو، تو اس کا اعتکاف درست ہوجائے گا اور اگر چاند نظر نہیں آیا، تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا اور اس دن کی قضا لازم آئے گی۔
لما في التنوير مع الدر:
(فلو خرج) ولو ناسيا (ساعت) زمانية لا رملية كمامر (بلاعذر فسد) فيقصيد الا اذا أفسد بالردة الخ. (كتاب الصوم، باب الاعتكاف، ٥٣/٣ ط: رشيدية)
وفي المبسوط:
إذا دخل المسجد بنيته الاعتكاف فهو معتكف ما أقام تارك له إذا خرج، ولا ينبغى للمعتكف أن يخرج من المسجد الا الجمعة أو غائط أو بول. (كتاب الصوم، باب الاعتكاف، ٢/١٣، ط: رشيدية)
وفي التبيين الحقائق:
(فإن خرج ساعة بلا عذر فسد) أى فسد اعتكافه وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا لا يفسد الا باكثر من نصف يوم، قوله اقلس…… وقولهما استحسان. (كتاب الصوم، باب الاعتكاف، ٢/٢٣٠، عباس احمد)
وقال ابن عابدين رحمه الله:
قال في البدائع: فإن كان بحيث يتلوث بالماء المستمعل يمنع منه؛ لان تنظيف المسجد واجب.١هـ. (كتاب الصوم، باب الاعتكاف، ٣/٥٠١، ط: رشيدية)
مجمع الأنهر:
(ولا يخرج المعتكف) من (الا لحاجة الانسان) كالظهارة ومقدماتها، وهذا التفسير احسن من أن يفسر بالبول والغائط تدبر. (كتاب الصوم، باب الاعتكاف، ١/٣٧٨، ط: مكتبة الغفارية).فقط.واللہ اعلم بالصواب
133/34-36
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer