معتکفین کے لیے مسجد کے اندر غسل کی جگہ متعین کرنا

Darul Ifta

معتکفین کے لیے مسجد کے اندر غسل کی جگہ متعین کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ معتکفین کے لیے مسجد کے صحن میں جبکہ وہ حدث اصغر واکبر سے پاک ہو ،تبرید اور ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنا  اور اپنے بدن پر پانی بہانا جائز ہے یا نہیں؟
ہمارے علاقے میں بعض مولوی کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے اور دلیل میں یہ کہتے ہیں کہ: جب انسان حدث اصغر اور اکبر سے پاک  ہو، تو وہ اپنے بدن پر پانی بہائے جائز ہے کیوں کہ وہ پانی مستعمل نہیں ہوتا، اس وجہ سے تبرید کے لیے مسجد کے اندر غسل جائز ہے۔
اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو مسجد میں غسل کرنے کے قائل ہوں؟ اور جن لوگوں نے مسجد میں غسل  کیا ہے ان کا کفارہ  کیاہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ معتکف کے لیے مسجد کے کسی حصے کو غسل تبرید(ٹھنڈک ) کے لیے اس طرح متعین کرنا کہ پانی مسجد کے اندر گرے یہ آداب مسجد کے خلاف ہے۔
لہذا جو مذکورہ طریقے سے (اس طرح غسل کرنا کہ پانی مسجد کے اندر گرے) غسل کرنے کا قائل ہو یا جس نے مذکورہ طریقے سے غسل کیا ہو، اس کو توبہ واستغفار کرنا چاہیے اور آداب مسجد کا لحاظ رکھتے ہوئے اس طریقے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
البتہ معتکف شدید گرمی کے وقت مسجد کے اندر ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل اس طور پر  کرسکتا ہے کہ پانی مسجد کے اندر نہ گرے، چنانچہ مسجد کو غسل کے پانی سے بچانے کے لیے فقہاء نے ٹب وغیرہ میں غسل کرنے کا حیلہ بیان فرمایا ہے۔
لما في الهندية:
’’إن أمكنه الإغتسال في المسجد من غير أن يتلوث المسجد فلا بأس به وإلا فيخرج يغتسل‘‘.(كتاب الصوم، الباب السابع في الاعتكاف: ١/٢١٣:رشيدية)
وفي الخانية:
’’ولا بأس للمعتكف أن ينام في المسجد أو يخرج رأسه من المسجد إلى بعض أهله ليغسله وإن غسله في المسجد في إناء لا بأس به لأنه ليس فيه تلويث المسجد‘‘.(كتاب الصوم، فصل في الاعتكاف، ١/٢٢٣: رشيدية)
(وكذافي البدائع:كتاب الاعتكاف: ٣/٣٢: دار الكتب العلمية)
وفي الرد:
’’فلو أمكنه من غير أن يتلوث المسجد فلا بأس به بدائع أي: بأن كان فيه بركة أو موضع معد للطهارة أو اغتسل في إناء بحيث لا يصيب المسجد الماء المستعمل.قال: في البدائع: فإن كان بحيث يتلوث المسجد بالماء المستعمل منه يمنع منه؛ لان تنظيف المسجد واجب‘‘.(كتاب الصوم، باب الاعتكاف: ٣/٥٠١:رشيدية).فقط.واللہ اعلم بالصواب
117/363
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer