مسجد میں مدرسہ چلانا اور مسجد کی آمدنی مدرسہ کے لیے استعمال کرنے کا حکم

مسجد میں مدرسہ چلانا اورمسجد کی آمدنی مدرسہ کے لیےاستعمال کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گھر کے پاس کی مسجد کی قریب 29 دکانیں ہیں، جو رینٹ پر ہیں، رینٹ کی انکم سے مسجد کا نظام چلتا ہے، اچھی بیلنس رہتی ہے لیکن کچھ مہینوں سے مسجد کے اوپر والے حصے میں مدرسہ شروع کیا ہے ،امام صاحب نے، اور مسجد کے ٹرسٹی مدرسہ چلانے کے لیے امام صاحب کو 60 ہزار روپے دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ مسجد کی آمدنی سے 300 بچوں کا مدرسہ چلا سکتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ سرائے مسجد کے اوپر والے حصے میں مدرسہ چلا سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں چوں کہ مدرسہ مسجد کے تابع ہے، لہٰذا مسجد کے اوپر والے حصے میں مدرسہ چلا سکتے ہیں، اور مسجد کی آمدنی بھی مدرسہ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، جہاں تک مسجد کے بالائی حصوں میں بچوں کو تعلیم دینے کا تعلق ہے، تو متبادل جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں بچوں کو تعلیم دینا درست ہے۔

لمافي الدر مع الرد:

«(لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع)قوله (إلا في أربع)الأولى: لو شرطه الواقف، الثانية: إذا غصبه غاصب وأجري عليه الماء حتى صار بحرا فيضمن القيمة ويشتري المتولي بها أرضًا بدلًا الثالثة: أن يجحده الغاصب ولا بينة أي وأراد دفع القيمة، فالمتولي أخذها ليشتري بها بدلًا الرابعة: أن يرغب إنسان فيه ببدل أكثر غلة وأمس صقعا فيجوز على قول أبي يوسف، وعليه الفتوى كما في فتاوى قاري الهداية».(كتاب الوقف، مطلب لا يستبدل العامر إلا في أربع: 6/594، رشيدية)

وفي قاضي خان:

«وأجمعوا على أن الواقف إذا شرط الاستبدال لنفسه في أصل الوقف، يصح الشرط والوقف ويملك الاستبدال: أما بدون الشرط: أشار في السير أنه لا يملك الاسبتدال إلا القاضي إذا رأى المصلحة في ذلك. (كتاب الوقف: 3/306، رشيدية)

وفي الرد مع الدر:

«(وإن اختلف أحدهما بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجد أو مدرسة ووقف عليهما أوقافا لا يجوز له ذلك) أي: الصرف المذكور .....

تنبيه: قال الخير الرملي: أقول ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر، وهي واقعة الفتوى اهـ». (كتاب الوقف، مطلب: في نقل أنقاض المساجد ونحوه: 6/553، 554، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/06