مسئلے کا جواب خواہش کے مطابق نہ ہونے پر عمل نہ کرنے کا ارادہ کرنا، عقائد کے متعلق کتاب

Darul Ifta mix

مسئلے کا جواب خواہش کے مطابق نہ ہونے پر عمل نہ کرنے کا ارادہ کرنا، عقائد کے متعلق کتاب

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔ اگر کسی نے شرعی فتو ی معلوم کیا ، لیکن دل میں سوچا  یا  زبان سے کہا: ’’اگر یوں حکم آیا تو عمل نہیں کروں گا‘‘ ایسا کہنے کا کیا حکم ہے؟

۲۔  کوئی اچھی سی کتاب بتادیں، جس میں مکمل عقائد و فرائض کی معلومات ہوں۔

جواب

۱۔ واضح رہے کہ تمام مسلمان شریعت کے احکام پر عمل کرنے کے پابند ہیں،کسی حکم شرعی کے بارے میں زبان سےیہ کہنا کہ ”اگر یوں حکم آیا،تو عمل نہیں کروں گا“یہ طریقہ جاہلیت ہے،لہذا ایسی باتیں کرنے والا توبہ و استغفار کرےاور اس کو آئندہ کے لئے ایسی بات کہنے سے اجتناب کرنا چاہیےاور اگر دل میں صرف ایسا خیال آیا ،تو وہ معاف ہےاور اس پر کوئی گرفت نہیں۔

۲۔”تعلیم الاسلام“ مصنف[حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دھلوی  رحمہ اللہ تعالی]”بہشتی زیور“ مصنف[حکیم الامۃ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی]اور ”علم العقائد  “مصنف [حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تعالی]ان کتابوں کا مطالعہ فرمائیں ۔

لما في تفسیر ابن کثیر:

{وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا }أي: مهما أمركم به فافعلوه، ومهما نهاكم عنه فاجتنبوه، فإنه إنما يأمر بخير وإنما ينهى عن شر.وقوله: { وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ } أي: اتقوه في امتثال أوامره وترك زواجره؛ فإنه شديد العقاب لمن عصاه وخالف أمره وأباه، وارتكب ما عنه زجره ونهاه“.(سورة الحشر،4/431،ط:دارالسلام)

وفي تفسیر روح المعاني:

”وأخرج الحميدى في مسنده وأبو داود وابن ماجه عن جابر بن عبد الله أنه قال : زنى رجل من أهل فدك فكتبوا إلى ناس من اليهود بالمدينة أن سلوا محمدا ﷺ عن ذلك فإن أمركم بالجلد فخذوه عنه وإن أمركم بالرجم فلا تأخذوه عنه“.(سور المائدة ،41،ط:موسسة الرسالة)

وفي مرقاۃ المصابیح:

”وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله - ﷺ -: «لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئ لما جئت به  من السنة الزهراء، والملة النقية البيضاء، حتى تصير همومه المختلفة وخواطره المتفرقة التي تنبعث عن هوى النفس وميل الطبع هما واحدا يتعلق بأمر ربه، واتباع شرعه تعظيما له وشفقة على خلقه »... فلا يميل إلا بحكم الدين، ولا يهوى إلا بأمر الشرع فهو المؤمن الفريد الكامل الوحيد الذي يقبل منه التوحيد، ومن أعرض عنه متبعا لما هواه مبتغيا لمرضاه فهو الكافر الخاسر في دنياه وعقباه“. (کتاب الإیمان ،باب الاعتصام بالکتاب  والسنة،1/412،413،ط:رشیدیة).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 175/136،137