کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں دستور یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ کسی مالدار سے پیسے بطور قرض لے کر اپنی زمین گروی اور رہن رکھواتا ہے اور جب تک مالدار کو اس کی رقم واپس نہیں کرتا ، تب تک مالدار اس گروی زمین سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اس میں کاشت کاری وغیرہ کر کے فصلیں اگاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو اس کے جواز کی نوعیت کیا ہے؟ امید ہے آنجناب قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرما کر اس پیچیدگی سے نجات دیں گے۔
واضح رہے کہ رہن وگروی رکھی ہوئی چیز سے انتفاع اور فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ رہن کا نماء یعنی بڑھوتری راہن کی ہو گی۔ قدوری میں لکھا ہے:’’ونماؤه للراھن‘‘۔(باب الرھن، ص:105)
اور شرح وقایہ کی جلد رابع کے حاشیہ میں شامی کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’لایحل له أن ینتفع بشيء منه بوجه من الوجوہ، وإن أذن له الراھن؛ لأنه أذن له في الربو، فإن الرھن وثیقة والدین دین، فأي شيء بینهما یجوز المنافع عليه وما بنوا عليه الحیلة فلیس بشيء‘‘۔(شرح وقایہ:74/4)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اس میں حیلہ کرنا بھی جائز نہیں ہے اور راہن کا اجازت دینا بھی فائدہ نہیں دیتا اور مرتہن کا رہن سے فائدہ حاصل کرنا سود میں داخل ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/06