مروّجہ کمیٹی میں سے منتظم کا بطور اجرت کٹوتی کرنے کا حکم

مروّجہ کمیٹی میں سے منتظم کا بطور اجرت کٹوتی کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم دکانداروں نے آپس میں مہینے کے اعتبار سے کمیٹی (BC) شروع کی ہے ساری کمیٹی کی رقم زید خود مہینے کہ شروع میں سارے دکانداروں سے جمع کرتا ہے اس میں زید نے پہلے سے دکانداروں سے یہ بات طے کی تھی کہ ہر شخص کی کمیٹی نکلنے پر میں 500 روپے لوں گا یہ اس وجہ سے کہ میں آپ لوگوں کے پاس دکان سے وقت نکال کر آتا ہوں جس میں کبھی موٹر سائیکل استعمال کرتا ہوں اور کبھی پیدل چل کر آتا ہوں، زید کی اس بات پر سارے دکاندار راضی بھی ہیں۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس میں کچھ حضرات ایسے ہیں جو خود زید کے پاس کمیٹی لے کر آتے ہیں تو زید کے لیے ان دونوں حضرات سے یعنی جن کے پاس زید خود جاتا ہے اور جو حضرات خود زید کے پاس کمیٹی لے کر آتے ہیں ۔

500 روپے لینا شرعاً کیا ہے؟

زید نے تمام کمیٹی والے حضرات سے کیا ہے کہ سب سے پہلے کمیٹی میں لوں گا زید کی اس بات پر ساری کمیٹی اراکین راضی ہوگئے۔

کیا زید کا یہ شرط لگانا درست ہے یا نہیں۔زید نے تمام کمیٹی اراکین سے کہا ہے اگر کوئی شخص کمیٹی کے دوران نکلنا چاہیے تو اس کی جمع شدہ رقم اس کو سب سے آخر میں ملے گی اس پر سب راضی ہوگئے ۔ کیا زید کے لیے یہ شرط لگانا کیسا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں زید نے جن شرکاء سے معاہدہ کیا ہے اور ان کے پاس جا کر وقت نکال کر کمیٹی کے لیے رقم جمع کرتا ہے تو صرف ان شرکاء کی رضا مندی سے کمیٹی کی رقم سے اپنے لیے الگ متعین اجرت مقرر کرے تو یہ جائز ہے۔

البتہ جو شرکاء خود زید کے پاس آ کر رقم جمع کرتے ہیں اور زید کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی تو ان حضرات سے اجرت لینا درست نہیں ہے۔

اور زید کا تمام شرکاء سے پہلے کمیٹی لینے کی شرط لگانے پر اگر تمام شرکاء راضی ہیں، تو زید کا یہ شرط لگانا بھی درست ہے۔

اسی طرح زید کا کمیٹی اراکین کے باہمی رضا مندی کے ساتھ یہ شرط لگانا کہ اگر کوئی دوران کمیٹی نکلنا چاہے تو اس کی جمع شدہ رقم اسے آخر میں ملے گی درست ہے، لیکن کمیٹی اراکین پر یہ شرط لازم نہیں ہوگی، وہ اس شرط سے رجوع کرسکتے ہیں، تاہم وعدے کو پورا کرنا بہتر ہے۔

لما في التنوير:

هو عقد مخصوص يرد على دفع مال مثلي لآخر ليرد مثله، وصح في مثلي لا في غيره. (كتاب البيوع، فصل في القرض: 7/406، رشيدية)

وفي بدائع الصنائع:

والأجل لا يلزم في القرض، سواء كان مشروطًا في العقد أو متأخر عنه بخلاف سائر الديون، والفرق من وجهين: أحدهما: أن القرض تبرع، ألا ترى أنه لا يقابله عوض للحال، وكذا لا يملكه من لا يملكه التبرع، فلو لزم فيه الأجل لم يبق فيه تبرعًا فيتغير المشروط، بخلاف الديون. والثاني: أن القرض يسلك به مسلك العارية... (كتاب القرض، فصل في الشروط: 10/600، رشيدية)

وفي الدر مع الرد:

(القرض) فلا يلزم تأجيله. قوله: (فلا يلزم تأجيله) أي: أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع منه. (كتاب البيوع، مطلب: في تأجيل الدين: 7/402، رشيدية)

وفي التنوير مع الرد:

(هي تمليك نفع لعرض وكل ما صلح أجرة ....) وشرطها: كون الأجرة المنفعة معلومتين لأن جهالتهما تقضي إلى المنازعة. (كتاب الإجارة: 7/5-6-7-9، رشيدية)

وفي صحيح البخاري:

عن أبي هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا اؤتمن خان، وإذا وعد أخلف. (رقم الحديث: 2682).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/02