مروجہ قضائے عمری

Darul Ifta mix

مروجہ قضائے عمری

سوال

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی سے عمر بھر کی نمازیں قضا ہوگئی ہوں تو رمضان المبارک کے آخری جمعے میں نماز جمعہ کے بعد چار رکعت یا بارہ رکعت قضاکی نیت سے پڑھے تو قضا نمازوں سے اس کا ذمہ بری ہو جاتا ہے اسے ”قضائے عمری“ کہا جاتا ہے۔
تو کیا ایسی قضائے عمری درست ہے اور اس کا کوئی ثبوت قرآن وحدیث سے ہے یا نہیں؟

جواب 

واضح رہے کہ سوال میں مذکور مروّجہ قضائے عمری کا ثبوت قرآن وحدیث اور کتبِ معتبرہ میں نہیں، قضاء نمازوں کے بارے میں شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ قضاء نماز پہلی فرصت میں ادا کرلی جائے، چاہے نماز کا وقت ہو یا نہیں(سوائے اوقاتِ مکروہ کے) ۔اسی طرح نوافل کے بجائے قضاء پڑھ لیا کرے اور اگر کسی کا اس حالت میں انتقال ہو جائے کہ قضاء نمازیں اس کے ذمے باقی ہوں تو ہر نماز کے بدلے میں صدقہٴ فطر کی رقم کے برابر فدیہ ادا کیا جائے۔
لہٰذا سوال میں جو طریقہ مذکور ہے وہ غلط اور بدعت ہے اور لوگوں کو نماز کے ترک کرنے پر جری بنانا ہے۔ اسی طرح شریعت مطہرہ پربہتان اور اس میں دخل اندازی کے مترادف ہے،لہٰذا ایسی مہمل باتوں پر عمل اور یقین نہ کیاجائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی