مروجہ قضائے عمری کی حقیقت

مروجہ  قضائے عمری کی حقیقت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ عرصہ سے مندرجہ ذیل اشتہار کثیر تعداد میں شائع کراکے تقسیم کیا جار ہا ہے، براہ کرم اس کے متعلق شریعت مطہرہ کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں کہ قضائے عمری کا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ اور اس میں جن روایتوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ صحیح ہیں یانہیں؟

 اشتہار کی نقل درج ذیل ہے۔” اس کے لیے سلطان الاولیا ءشیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ کی کتاب مکتوبات صدی کے مکتوب ص٧٥ کے کچھ حصہ کا ترجمہ برائے استفادہ شائع کرایا گیا ہے ۔ نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے :

” اگر نمازیں قضا ہو گئی ہوں اور ان کی تعداد معلوم نہ ہو تو جمعہ کے دن جس وقت بھی چاہے ایک سلام سے چار رکعتیں پڑھے اور یوں نیت کرے'' نویت ان اصلی اﷲ تعالی اربع رکعات صلوٰۃ النفل تکفیر اللصلوٰۃ القضاء التی فاتت منی فی جمیع عمری متوجھا إلی جھۃ الکعبۃ اﷲ اکبر.''ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک بار ، آیۃ الکرسی ایک بار ، انا عطینا پندرہ بار پڑھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ! کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ دو سو برس کی قضا نماز کا کفارہ ہے او رحضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ! کہ میں نے حضور صلی اﷲ علیہ ولم کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ یہ چار سو برس کی قضا نماز کا کفارہ ہے اورحضرت مولائے کائنات علی ابن ابی طالب رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا ! کہ میں نے سید دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ سات سو برس کی قضا شدہ نمازوں کا کفارہ ہے، اعداد کا اختلاف وحی کے اختلاف کی بناء پر ہے ،اصحاب ؓ  رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا!  یارسول اﷲہماری اور دوسرے لوگوں کی عمریں تو ستر، اسی یا سو برس تک ہوا کرتی ہیں ، اتنی صفتوں کا کیا مطلب ہے؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے ماں باپ، اقربا اور اولاد کی نمازوں کا کفارہ ہے، اس نماز کے ادا کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے او رحضرت سرکار دو عالم پر سو مرتبہ درود بھیجے۔ دعا یہ ہے۔''اللھم یا سابق الفوت ویا سامع الصوت ویا محیّی العظام بعد الموت صلی علی محمد وعلی آلہ محمد وجعل لی خرجا ومخرجا مما انا فیہ انک تعلم ولا اعلم وانت تقدر ولا اقد روانت علاّمہ الغیوب یاراحم العطایا ویا غافر الخطایا سبوح قدوس ربنا و رب الملئکۃ والروح رب اغفر وارحم وتجاوز عما تعلم فانک انت العلی العظیم یا ساتر العیوب یا ذوالجلال والاکرام یا ارحم الراحمین وصلی اﷲ علیہ وسلم محمد والہ اجمعین.''

جواب

قضائے عمری کے نام سے جو نماز مختلف صورتوں سے رائج ہے، جن میں ایک صورت مندرجہ بالا سوال میں مذکور ہے، یہ محض بےاصل اور اختراعی ہے، شریعت مقدسہ میں اس کی کوئی اصل نہیں، نہ ہی یہ نماز کسی حدیث مرفوع یا آثار صحابہ رضی اﷲعنہم سے ثابت ہے اور نہ ہی ائمہ مجتہدین میں کسی سے منقول ہے ،بلکہ کتب فقہ میں کہیں اس کا اشارۃبھی ذکر نہیں ہے او رحضرات خلفاء ثلاثہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے اس کے فضائل میں جو روایتیں نقل کی گئیں ہیں، ایسی کوئی روایات باوجود تحقیق بسیار کے کتب احادیث میں ہماری نظر سے نہیں گزری، جن حضرات نے یہ روایتیں بیان کی ہیں ان پر لازم ہے کہ اس کی سند او رحوالہ ذکر کریں اور ظاہر یہ ہے کہ یہ روایات من گھڑت اور بے اصل ہیں،کیوں کہ شریعت میں قضاء نمازوں کا حکم یہ ہے کہ بلوغت کے بعد چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا پڑھنا فرض ہے اگر ان کی صحیح تعداد معلوم ہو تو اس کے موافق قضاء کرے ،ورنہ اندازکے مطابق  ان کی احتیاطی تعداد متعین کرکے آہستہ آہستہ ان کو پڑھتا رہے،اگر موت تک تمام ادا نہ کرسکے تو مرنے سے پہلے فدیہ کی وصیت کرکے جائے ،باقی ایسی کوئی نماز شریعت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے، جو سینکڑوں ہزاروں نمازوں کے قائم مقام ہوجائے؛لہٰذا اس مصنوعی قضاء عمری کو ترک کرنا لازم ہے کہ یہ بدعت ، بے اصل اور خلاف شریعت ہے۔

وقال الشیخ عبدالعزیز الدھلوی فی رسالتہ'' العجالۃ النافعۃ عند ذکر قرآئن الوضع ما معربہ: الخامس أن یکون مخالفا لمقتضی العقل وتکذبہ القواعد الشرعیۃ مثل القضاء العمری ونحو ذلک.

وشرح المواہب اللدنیۃ لمحمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی نقلا عن شرح منھاج النووی لابن حجر الملکی الھیثمی  الشافعی المسمی بالتحفۃ بعد ذکر قباحۃ حفیظۃ رمضان وسیأتی ذکرھا، وأقبح من ذلک ما اعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلاتھا زاعمین إنھا تکفر صلوٰۃ العام أو العمر المتروکۃ وذلک حرام لوجوہ.''( مجموعۃ رسائل اللکنوی، ردع الإخوان عن محدثات آخرجمعۃ رمضان ٢/٣٦٥،٣٦٦، إدارۃ القرآن)

''ونقل بعضھم عن حمایۃ الفقہ: لا سبیل لقضاء الصلوات الخمسۃ فی آخر جمعۃ رمضان، کما قیل من قضی صلوات خمسۃ فھی جابرۃ لسبعین سنۃ؛ لأن الأحادیث المرویۃ فیہ موضوعۃ عند المحدثین۔۔۔۔۔۔؛ لأن فیہ مفاسد.''أحدھا: أن من شروط الاقتداء اتحاد صلاۃ الإمام والمأموم اتحادا شخصیاً، وھذا لا یوجد فیھم یقینا.'' والثانی: أنھم یعتقدون أن ھذہ الصلاۃ تکفیھم عن جمیع الفوائت وھذا الاعتقاد یقلع أصل الأحکام الإسلام.الثالث: أنھا اعلان وتشھیر لکبائر نفوسھم، وھو فسق .الرابع: أنھا اختراع بدعی وضلالۃ ما أجازلھم الشارع لذلک لا دلالۃ، ولا إشارۃ، ولا قیاسیاً، ولا اجماعاً وما رووہ من حدیث فی ذلک کذب لاینبغی للمؤمن المحقق أن یصغی إلیہ کما حققہ علی القاری فی التذکرۃ.''(مجموعۃ رسائل اللکنوی ٢/٣٦٦،٣٦٧، إدارۃ القرآن).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی