شادی سے متعلق چند رسومات کا حکم

Darul Ifta mix

شادی سے متعلق چند رسومات کا حکم

سوال

… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں نسبت طے ہو جانے کے بعد شادی سے قبل چند رسومات ادا کی جاتی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

1..نسبت طے ہو جانے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر ایک تقریب رکھی جاتی ہے، جس کو ہماری پشتو زبان میں ”گڑھ ماتے“ کہا جاتا ہے، جس میں لڑکے والے چند افراد کو لے کر لڑکی والوں کے ہاں جاتے ہیں او رپھر مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے او ربعض اوقات دعوت کا انتظام بھی کیا جاتا ہے او رپھر آخر میں ایک بندہ تلاوت کرتا ہے اورپھر دعا کرکے مجلس برخاست کر دی جاتی ہے۔

2..اس رسم کے بعد پھر منگنی کی تاریخ رکھی جاتی ہے، جس میں لڑکے والے لڑکی والوں کے ہاں اپنی رقم سے دعوت کا انتظام کرتے ہیں اور بارات کی شکل میں لڑکی والوں کے ہاں جاتے ہیں، جن میں ایک کثیر تعداد خواتین کی بھی ہوتی ہے او رپھر وہاں کھانا کھاتے ہیں او رکھانا کھانے کے بعد دولہا کو نئے کپڑے او رپھولوں او رپیسوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں او رہار پہنانے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کو دولہا والے پہلے پہنا چکے ہوتے ہیں او راب اس کا بدل ادا کرنے کے لیے وہ اسے پہناتے ہیں۔

3..منگنی میں جانے والی ہر عورت اپنے ساتھ تقریباً تین کلو چینی کسی رومال میں لے جاتی ہے اور بدلے میں لڑکے والے اسی رومال میں کوئی دوپٹہ، جوڑا یا کچھ رقم رومال میں باندھ کر واپس کرتے ہیں، اگر کوئی خالی رومال واپس کر دے تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے۔

4..اس کے ایک ہفتے کے بعد لڑکی والے لڑکے والوں کے ہاں چند مخصوص افراد کے ساتھ کھانے کے ہم راہ جاتے ہیں اور دعوت کا انتظام ہوتا ہے۔

5..شادی سے قبل اگر درمیان میں عید آجائے تو اس عید میں لڑکے والے لڑکی کے لیے مختلف قسم کی اشیاء مثلاً کپڑے، جوتے، کنگھی اور ضروریات کی مختلف اشیاء کچھ خواتین کے ساتھ جماعت کی شکل میں لے جاتے ہیں اور وہاں لڑکی والے ان کے لیے دعوت کا انتظام کرتے ہیں اور جب وہ واپس ہونے لگتے ہیں تو لڑکی والے آنے والی ہر ہر عورت کو کچھ پیسے بھی دیتے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا رسومات کا کیا حکم ہے؟ کیا شریعت میں ان رسومات کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں؟ اگر کسی شخص کو ان رسومات سے آگاہ کیا جائے او راس کے باوجود وہ ان رسومات کا ارتکاب کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ بینواوتوجروا․

جواب

…واضح رہے کہ سوال میں مذکور کسی ایک صورت کا بھی شریعت میں ثبوت نہیں ملتا، محض رسومات اور بدعات ہیں، جو مندرجہ ذیل مفاسد پر مشتمل ہیں؛ لہٰذا ان سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔

1..لڑکی اور لڑکے والوں کا ایک دوسرے کے گھر جانے میں نامحرم مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، جو شریعت میں ممنوع اور ناجائز ہے۔

2..ان رسومات میں فضول خرچی اور اسراف سے کام لیا جاتا ہے، جس سے الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

3..ان رسومات کو لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہے، نہ کرنے والوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالاں کہ مباح یا مندوب امر کو لازمی ٹھہرانا درست نہیں۔

4..شادی سے پہلے جو دعوتیں کی جاتی ہیں، اگر اپنی رضا مندی سے کرتے ہیں تو درست ہے کہ مہمان کی مہمان نوازی ہے، لیکن آج کل رضا مند ی نہیں ہوتی، بلکہ لوگوں کے عار دلانے سے بچنے کے لیے دعوت کرتے ہیں تو یہ مال طیب خاطر سے نہ ہوا اور دوسرے کا مال اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کھانا جائز نہیں۔

5..ایسی تقریبات میں بسا اوقات گانے، بجانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس کا سننا حرام ہے۔

6..ایسی تقربیات میں عورتیں زیب وزینت کا لباس پہن کر نکلتی ہیں او راپنی زینت کا اظہار کرتی ہیں ،جب کہ الله تعالیٰ نے نامحرم کے سامنے زینت چھپانے کا حکم دیا ہے۔

7..ایسی تقریبات نام نمود کے لیے کی جاتی ہیں، جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی