لاک ڈاؤن میں تعلیم، طریقہٴ تعلیم اور اساتذہ کی تنخواہوں کا حکم

Darul Ifta mix

لاک ڈاؤن میں تعلیم، طریقہٴ تعلیم اور اساتذہ کی تنخواہوں کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب تمام معمولات معطل ہو گئے اورحکومتی پابندیوں کی وجہ سے مساجد ومدارس بھی مقفل ہو گئے، تو مدرسہ کی انتظامیہ کے دباؤ پر مہتمم صاحب نے مدرسہ کے تمام اساتذہ کرام کو آن لائن تعلیم دینے کا مکلف بنایا، مرحلہ ثانویہ ¾کے درجات میں ابھی آن لائن تعلیم ہورہی ہے اور آن لائن تعلیم کے لیے Messenger Room کا انتخاب کیا گیا، اب تعلیم کا وقت شروع ہوتے ہی متعلقہ درجہ کا ایک طالب علم رومCreate کرتا ہے او راس کالنک Viber Group میں ارسال کر دیتا ہے، اس لنک کے ذریعے گروپ ممبران جو اس درجہ کے طلبہ اوراساتذہ ہیں، اس لنک کے ذریعہ (جس کے پاس فیس بک کا اکاؤنٹ ہے وہ اپنے اکاؤنٹ سے اور جس کے پاس فیس بک کا اکاؤنٹ نہیں ہے وہ Chrome Broserکے ذریعہ) اس روم سے Join ہو جاتا ہے اور اساتذہ اور طلبہ سب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ویڈیو کالنگ کے ذریعہ سبق پڑھتے پڑ ھاتے ہیں۔
1..ایسی صورت حال میں درس وتدرس کو کیف ما اتفق جاری رکھا جائے ،یا حالات ساز گار ہونے تک موقوف رکھا جائے؟
2..اگر موقوف رکھا جائے تو اساتذہ کی تنخواہوں کا کیا حکم ہو گا؟ تنخواہیں لینا جائز ہے یا ناجائز؟ او راگر درس وتدریس کو جاری رکھا جائے تو اس کے لیے کون سا طریقہ مناسب ہے؟
3..مندرجہ بالا صورت کے ساتھ یعنی فیس بک، یا میسنجر روم، زوم، یا اسکائپ سے ویڈیو کالنگ کے ذریعے درس وتدریس کا کیا حکم ہے؟ یا صرف وائس کالنگ کو استعما ل کیا جائے؟
4..اگر کوئی استاد یا طالب علم اپنا کیمراآف رکھے ،استاذ صرف طلبہ کو آواز سنائے، یا طلبہ صرف آوازسنیں، تو کیا وہ استاذ یا طالب علم زجرو توبیخ کا مستحق ہے؟
5..اگر مذکور الصدر صورت میں شرعاً کوئی قباحت ہے تو اس طرح تعلیم کے ذریعہ جو تنخواہیں وصول ہوئیں ،ان کا کیا حکم ہے؟

شرعی حکم سے آگاہ فرماکر بندہ کا تذبذب دور فرمائیں، الله تعالیٰ آپ کو دارین میں اپنی شایان شان اجر عطا فرمائے۔ آمین

جواب

1..درس وتدریس کے نظام کو معطل وموقوف رکھنے سے بہتر ہے کہ اسے ایسے جائز اورشرعی طریقہ پر جاری رکھا جاوئے، جس میں کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ ہو نے پائے۔

2..شرعی نقطہٴ نظر سے اساتذہٴ مدرسہ وملازمین وغیرہ اجیر خاص کہلاتے ہیں، لہٰذا اگر اساتذہ وملازمین وغیرہ نے مقررہ اوقات میں متعلقہ مقامات پر اپنے آپ کو سونپ دیا ہو او رمتعینہ اوقات میں حاضر رہے ہوں، یا مقررہ وقت میں انہوں نے آن لائن سبق پڑھا دیا ہو، تو یہ لوگ اجرت (تنخواہ) کے شرعاً حق دار ہیں ، اور درس وتدریس کو مناسب اور شرعی طریقوں پر ہی بحال رکھیں۔

3..ویڈیو کالنگ شرعاً ناجائز ہے، اس لیے وائس کالنگ پر اکتفاء کیا جائے۔

4..اساتذہ وطلباء کرام دونوں اپنے اپنے کیمروں کو بند کرکے ہی درس وتدریس کو جاری رکھیں او راس پر کوئی ایک فریق بھی لائق زجروتوبیخ نہیں، بلکہ قابل ِ صد ستائش ہے، کہ وہ ممنوعات سے بچنے کا التزام کر رہا ہے۔

5..جو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ پڑھانے کی اجرت ہے، جو کہ جائز ہے، البتہ تصویر کشی(اگر ہوگئی ہو) کا گناہ الگ ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی