قرض پر زکوٰۃ کے وجوب کا حکم

Darul Ifta

قرض پر زکوٰۃ کے وجوب کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اگر کچھ رقم کسی کو قرض کے طور پر دے دی ہے تو کیا اس رقم کی زکوٰۃ بھی مجھے ہی بدستور ادا کرنی پڑے گی؟

جواب

اس صورت میں زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی، بشرطیکہ قرض دار اس کا اقرار کرتا ہو اور دینے کا وعدہ کرتا ہو، یا وہ انکار کرتا ہو مگر آپ کے پاس کوئی شہادت یا دستاویزی ثبوت ایسا موجود ہو ،جس کے ذریعہ آپ بذریعہ عدالت وہ قرض وصول کرسکتے ہوں، زکوٰۃ آپ قرض کی وصولی سے پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں اور قرض کی وصولی کے بعد بھی پورے سالوں کی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے ۔ قرض کی تین قسمیں ہیں۔
١۔ ایک یہ کہ نقد روپیہ یا سونا چاندی کسی کو قرض دیا یا تجارت کا مال کسی کو فروخت کیا تھا او راُس کی قیمت اس کے ذمہ باقی ہے، پھر یہ مال ایک سال یا دو تین سال کے بعد وصول ہوا ایسے قرض کو فقہاء کی اصطلاح میں دینِ قوی کہا جاتا ہے، ایسا قرض اگر بقدرِ نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو وصول ہونے پر پچھلے تمام سالوں کی زکوٰۃ فرض ہے، لیکن اگر یکمشت وصول نہ ہو، بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو تو جب مقدارِ نصاب کا پانچواں ١/٥ یعنی مقدارِ نصاب کا بیس فی صدی (ساڑھے دس تولہ چاندی کی قیمت کے برابر) وصول ہو تو صرف اس پانچویں حصہ کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہو گا۔ پھر جب او رپانچواں حصہ وصول ہو جائے تو اس پانچویں حصہ کی زکوٰۃ فرض ہو گی اور اسی طرح ہر پانچویں حصہ کی زکوٰۃ فرض ہوتی رہے گی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ زکوٰۃ پورے سالوں کی نکالی جائے گی۔ اور اگر یہ پورا قرض بقدرِ نصاب نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، البتہ اگر آپ کے پاس کچھ اور مال بھی ہے اور دونوں ملا کر بقدرِ نصاب ہو جائیں تو زکوٰۃ فرض ہو گی۔ (احکام زکوٰۃ ص٨٤، بحوالہ شامی ٥٣،ج٢)
٢۔ دوسری قسم یہ ہے کہ وہ قرض نہ نقد روپے کی صورت میں دیا گیا ہو، نہ سونا چاندی کی صورت میں اور نہ مالِ تجارت فروخت کیا ہو، بلکہ کوئی اور چیز فروخت کی تھی جو تجارت کی نہ تھی۔ تو ایسے قرض کو فقہاء کی اصطلاح میں دَینِ متوسط کہتے ہیں۔ اس چیز کی قیمت اگر بقدرِ نصاب ہے او رکئی سال کے بعد وصول ہوئی تو وصول ہونے پر ان تمام سالوں کی زکوٰۃ فرض ہو گی اور اگر یکمشت وصول نہ ہو تو جب تک یہ قرض پورے مقدارِ نصاب کے برابر وصول نہ ہو جائے اس وقت تک اس پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض نہیں ہوتا۔ جب بقدرِ نصاب وصول ہو جائے تو وصول شدہ رقم پر پچھلے تمام سالوں کی زکوٰۃ فرض ہے۔ (احکام زکوٰۃ ص٨٤، بحوالہ شامی ص٥٣،ج٢ وص٥٤،ج٢)
لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اس دوسری قسم کے قرض کے متعلق جو کہ بیان ہوا یہ اس صورت میں ہے کہ اس قرض کی وصول شدہ رقم کے علاوہ اور کوئی مال بقدرِ نصاب نہ ہو، لیکن اگر آپ کے پاس پہلے سے ایسا مال بقدرِ نصاب موجود ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مثلاً ایک ہزار روپے آپ کے پاس پہلے سے موجود ہیں اور پندرہ روپے اس دوسری قسم کے قرض کے وصول ہو گئے، اب جب ان ایک ہزار روپے کا سال پورا ہو گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ قرض سے وصول ہونے والے پندرہ روپے پر بھی سال گزر گیا، لہٰذا پورے ایک ہزار پندرہ روپے پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ (احکام بتغیر،ص٨٥)
٣۔ تیسری قسم یہ ہے کہ نہ نقد روپیہ قرض دیا نہ سونا چاندی دی اور نہ کوئی چیز فروخت کی بلکہ کسی اور سبب سے آپ کا قرض دوسرے کے ذمہ ہو گیا، مثلاً کسی عورت کا مہر شوہر کے ذمہ ہو یا شوہر نے بیوی سے خلع کیا ہو اور اس کی رقم بیو ی کے ذمہ ہو یا خون بہا یعنی دیت کی رقم کسی کے ذمہ ہو یا ملازم کی تنخواہ ادا کرنا باقی ہو ایسے قرض کو فقہاء دَینِ ضعیف کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا حساب وصول ہونے کے دن سے ہو گا، پچھلے سالوں کی زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔ جب وصول ہونے کے بعد اس پر سال گزر جائے تو اس سال کی زکوٰۃ فرض ہو گی، جب تک سال نہ گزرے زکوٰۃ فرض نہ ہو گی۔ (احکام ص٨٥، بحوالہ شامی ص٥٤،ج٢)
واعلم أن الدیون عند الإمام ثلاثۃ: قوي، ومتوسط، وضعیف، فتجب زکاتہا إذا تم نصابا وحال الحول، لکن لا فورا بل عند قبض أربعین درہما من الدین القوي کقرض وبدل مال تجارۃ فکلما قبض أربعین درہما یلزمہ درہم وعند قبض مائتین منہ لغیرہا أي: من بدل مال لغیر تجارۃ وہو المتوسط، کثمن سائمۃ وعبید خدمۃ ونحوہما مما ہو مشغول بحوائجہ الأصلیۃ کطعام وشراب وأملاک. ویعتبر ما مضی من الحول قبل القبض في الأصح، ومثلہ ما لو ورث دینا علی رجل وعند قبض مائتین مع حولان الحول بعدہ أي: بعد القبض من دین ضعیف وہو بدل غیر مال کمہر ودیۃ، وبدل کتابۃ وخلع، إلا إذا کان عندہ مایضم إلی الدین الضعیف کما مر. (الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال: ٢/٣٠٥،٣٠٦، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer