قربانی کس پرواجب ہے؟؟

Darul Ifta mix

قربانی کس پرواجب ہے؟؟

  • ۱……قربانی ہر اس مسلمان (مرد ہو یا عورت) پر واجب ہے جو عاقل، بالغ ، مقیم اور صاحب نصاب ہو ،صاحب نصاب سے مراد وہ ثخص ہے جو ساڑھے سات تولہ(87.479گرام)سونا یا ساڑھے باون تولہ(612.35گرام)چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت نقد کی شکل میں یا اس کے برابر سامان تجارت کا مالک ہو ، یہ سونا ، چاندی، نقد روپیہ اور سامان تجارت کھانے پینے کا سامان ، استعمال کے کپڑے ، سواری ، رہائش کا مکان، صنعتی آلات، مشینیں اور دیگر ضروریات کے علاوہ ہو ۔
    ۲……قربانی کے نصاب پر سال کا گزرنا ضروری نہیں ، بلکہ قربانی کے دنوں میں جس وقت بھی نصاب ملک میں آجائے تو قربانی واجب ہو گی ۔
    ۳……نابالغ اور پاگل پر قربانی واجب نہیں، اسی طرح وہ مسافر جو سوا ستتر کلو میٹر(77.248512)کی مسافت کے ارادہ سے سفر میں ہے، اس پر قربانی واجب نہیں۔
    ۴……قربانی کے دنوں میں اگر مکہ مکرمہ میں حاجی مقیم اور صاحب نصاب ہو، تو اس پر بھی عیدالاضحٰی کی قربانی واجب ہو گی ۔ واضح رہے کہ یہ قربانی دمِ شکر کی قربانی سے الگ ہے۔
    ۵……مردوں پر جس طرح قربانی واجب ہے اسی طرح عورتوں پر بھی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قربانی لازم ہے ۔ چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔
    ۶……جو شخص صاحب نصاب نہیں، اس پر قربانی واجب نہیں۔
    ۷……سونا، چاندی، نقد اور سامان تجارت کے علاوہ ضرورت سے زائد سامان کی قیمت بھی لگائی جائے گی ، یعنی کسی کے پاس ضرورت سے زائد سامان موجود ہے اور سال بھر وہ استعمال میں نہیں آتا اگر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس پر قربانی واجب ہو گی۔
    ۸……اگر باپ اور بیٹوں کی ملکتییں الگ الگ ہوں او رہر ایک صاحب نصاب ہو تو ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے او راگر باپ بیٹے اکھٹے رہتے ہوں ، ملکیتیں الگ الگ نہ ہوں اور بیٹوں کا مستقل کاروبار بھی نہیں اور ان کے پاس بقدر نصاب رقم بھی نہ ہو تو بیٹوں پر قربانی واجب نہیں ۔
    ۹……میاں بیوی کی ملکیتیں الگ شمار ہوں گی ، لہٰذا دونوں صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر مستقل قربانی لازم ہے، اگر دونوں صاحب نصاب نہیں لیکن دونوں کی مجموعی ملکیتیں نصاب کے برابر ہوں تو ان پر قربانی واجب نہیں۔ اگر ایک صاحب نصاب ہو (مثلاً :شوہر کاروبار کی وجہ سے یا بیوی زیورات کے مالک ہونے کی وجہ سے) تو صرف اس پر قربانی لازم ہے ،دوسرے پر نہیں۔ نیز جو قرض شوہر پر لازم ہو بیوی کو اپنے نصاب سے یا بیوی مقروض ہو تو شوہر کو اپنے نصاب سے ان کو منہا کرنا جائز نہیں ۔
    لما في جامع الترمذي:
    ’’عن جابر بن عبد الله قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى، فلما قضى خطبته نزل عن منبره، فأتي بكبش، فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال: «بسم الله، والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي‘‘.(کتاب الأضاحي،باب،رقم الحدیث:1521،۴/۱۰۰،دار احیاء التراث).
    وفي سنن إبن ماجۃ:
    ’’عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلايقربن مصلانا‘‘.(کتاب الأضاحي،باب الأضاحي واجبۃ،رقم الحدیث:3123،۲/۱۰۴۴،دارالفکر).
    وفي الدر مع الرد:
    ’’(وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)‘‘.
    قال إبن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
    ’’(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم‘‘.(کتاب الأضحیۃ،۶/۳۱۲،دارالفکر).
    وفي بدائع الصںائع:
    ’’وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لايجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.
    فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟
    (فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.
    وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة». وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح، وأنه فعل واحد لايتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقاً فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة‘‘.(کتاب التضحیۃ،فصل وأما محل إقامۃ الواجب،۵/۷۰،دارالکتاب العربي).فقط.واللہ اعلم بالصواب.
  • دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی