قرآن کریم کا ترجمہ بغیر عربی متن شائع کرنا

قرآن کریم کا ترجمہ بغیر عربی متن شائع کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل شہر میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ بغیر عربی آیات کے شائع کرکے تقسیم کیا جارہا ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ قرآن کریم کا صرف ترجمہ بغیر عربی عبارت کے کتابی صورت میں شائع کرنا کیسا ہے؟

جواب

قرآن کریم کا صرف ترجمہ کتابی صورت میں شائع کرنا ہر گز جائز نہیں اس کی کئی وجوہات ہیں:

۱۔ خدانخواستہ اگر یہ طریقہ رائج ہو گیا تو تورات وانجیل کی طرح اصل قرآن مجید ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہے، جب کہ قرآن کریم کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے، ترجمہ وتفسیر کا اصل قرآن کریم سے الگ نہ ہونا حفاظت کا سبب اور ذریعہ ہے اور اصل قرآن کریم سے ترجمہ وتفسیر کو جدا کرنا حفاظتِ قرآن میں خلل کا باعث بنے گا ،جب کہ یہ اصول ہے کہ فرض کا سبب بھی فرض ہوتا ہے اور حرام کا سبب بھی حرام ہوتا ہے،خلافت صدیقی کے زمانے میں بعض قراء شہید ہوئے تو تھوڑے بہت مباحثے کے بعد حضراتِ شیخین ؓ نے قرآن مجید کے صرف ضائع ہونے کے خطرے کے احتمال کااعتبار کرکے قرآن مجید کے جمع کرنے کا اہتمام ضروری قرار دیا تھا، لہٰذا اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وقت بڑے بڑے محققین موجود ہیں ان کی موجودگی میں قرآن شائع نہیں ہو گا کیوں کہ قرآن مجید کے حفاظ کی اس وقت بھی بڑی تعداد موجو دتھی، لیکن پھر بھی صرف احتمال کا لحاظ کرتے ہوئے اس کے جمع کا اہتمام کیا گیا، چنانچہ جیسا کہ اس وقت عدم کتابت میں ضائع ہونے کااحتمال تھا اس کی طرح صرف ترجمہ کی کتابت میں اس کا خطرہ ہے او راس خطرے کے وقوع کا وہی نتیجہ ہو گا جیسا حدیث شریف میں ہے :''أَمُتَہَوِّکُونَ أَنْتُمْ کَمَا تَہَوَّکَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی'' کیا تم لوگ کتاب اﷲ اور دین کے بارے میں ایسے حیرت زدہ ہو جیسے یہود ونصاری حیرت زدہ تھے۔ (مشکوۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ص٣٠، ایچ، ایم سعید)

۲۔ اس ترجمہ کو بلا وضو چھونا جائز نہیں ہو گا جیسا کہ فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ عوام الناس اس ترجمے کو قرآن سے علیحدہ ایک کتاب سمجھ کر اس کے چھونے کے لیے وضو کا اہتمام نہیں کریں گے تو ایسا ترجمہ شائع کرنا ایک غیر شرعی فعل کا سبب بنے گا اور غیر شرعی فعل کا سبب بھی غیر شرعی ہوتا ہے۔

۳۔ نیز ایسا کرنے کی صورت میں لوگ اس کا احترام بھی نہیں کریں گے او رایسے ترجمے کے اوراق پر انے اور بوسیدہ ہونے کی صورت میں دیگر عام کتابوں کے واراق کی طرح اس کا استعمال کریں گے جو ایک اور ناجائز عمل ہے۔

۴۔ امت میں سے کسی نے آج تک ایسا نہیں کیا اور اگر کسی نے ایسا کیا تو اس پر نکیر کی گئی، بلکہ اس طرح کا ترجمہ لکھنا، لکھانا اور شائع کرنا با جماع امت حرام اور باتفاق ائمہ اربعہ ممنوع ہے او رجب اس کا لکھنا اور شائع کرنا ناجائز ہوا تو اس کی خریدوفروخت بھی ناجائز ہو گی اور لکھنے اور شائع کرنے والے کو اپنے عمل کا بھی گناہ ہو گا اور جتنے مسلمان اس کی خرید وفروخت کی وجہ سے گناہ گارہو ں گے وہ بھی ان کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :(مَّن یَشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَکُن لَّہُ نَصِیْبٌ مِّنْہَا) (النساء:٨٥)

فتح القدیر میں ہے:''إنْ اعْتَادَ الْقِرَاء َۃَ بِالْفَارِسِیَّۃِ أَوْ أَرَادَ أَنْ یَکْتُبَ مُصْحَفًا بِہَا یُمْنَعُ وَإِنْ فَعَلَ فِی آیَۃٍ أَوْ آیَتَیْنِ لَا، فَإِنْ کَتَبَ الْقُرْآنَ وَتَفْسِیرَ کُلِّ حَرْفٍ وَتَرْجَمَتَہُ جَازَ.'' فتح القدیر، باب صفۃ الصلوٰۃ ص٢٨٦۔ج١،مصر)

محقق ابن ہمام کی اس عبارت سے اس کی بھی تصریح ہو گئی کہ فارسی یا کسی اور عجمی زبان میں مکمل قرآن کا ترجمہ لکھنا ممنوع ہے ایک دو آیات کا ترجمہ لکھنا تو جائز ہے، لیکن پورا قرآن یا اس کا کوئی متعدبہ حصہ اس طرح لکھنا حرام ہے، نیز یہ کہ اگر اصل عربی عبارت کے نیچے یا حاشیہ وغیرہ پر ترجمہ وتفسیر لکھی جائے تو وہ ممنوع نہیں۔

اس کا ترجمہ شائع کرنے کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ لوگوں کو عربی نہیں آتی لہٰذا ان کی آسانی کے لیے ترجمہ ضروری ہے تو یہ ضرورت تو دوسری زبان والے مسلمانوں کو بھی واقع ہوئی اس کے باوجود آج تک کسی اہل زبان کا ایسا نہ کرنا اس کے ناجائز ہونے پر اجماع کی دلیل ہے ، حدیث شریف میں ہے :''إِنَّ اللَّہَ لَا یَجْمَعُ أُمَّتِی أَوْ قَالَ: أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ عَلَی ضَلَالَۃٍ وَیَدُ اللَّہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ فِی النَّار.'' (مشکوٰۃ، باب الاعتصام ، بالکتاب والسنۃ، ص:٣٠)

اور اب تو متعدد ترجموں کے اصل کے ساتھ شائع ہونے سے قرآن مجید سے عوام الناس کا تعلق مضبوط ہو رہا ہے اگر ترجمہ سے مدد لیتے ہیں تو اصل بھی ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسی بہانے سے کچھ تلاوت بھی کر لیتے ہیں ورنہ قرآن سے بالکل ہی بے تعلق ہو جائیں گے اور ان پر یہ آیت صادق آنے لگی گی:(نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ کِتَابَ اللّہِ وَرَاء ظُہُورِہِمْ کَأَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُون)(ا لبقرۃ:١٠١)
اگر ترجموں میں کچھ اختلاف پایا گیا تو اصل بھی سامنے ہو گی، اس اصل کو سب نسخوں میں متحد پائیں گے تو اختلا ف کا خیال اصل تک نہیں پہنچے گا اور جب ترجمے ہی ترجمے رہ جائیں گے اور رفتہ رفتہ اصل نظروں سے غائب ہو گی تو اس وقت یہ اختلاف کلام اﷲ کی طرف منسوب ہو گا، پھر گمان ہونے لگے گا کہ اصل آیت میں ہی اختلا ف ہے اس طرح اعتقاد پر اثر پڑے گا او رعمل پر یہ اثر ہو گا کہ ترجموں کو لے کر یہود ونصاریٰ کی طرح آپس میں لڑیں گے اور مراجعت الی الاصل کی توفیق ہو گی نہیں جو کہ فیصلے کا مدار ہوسکتا ہے پس اس آیت کا مضمون ظاہر ہو جائے گا: (وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ أُوتُوہُ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیْاً بَیْنَہُمْ)(البقرۃ:٢١٣) اگر اصل اورترجمہ ایک ساتھ ہوں تو کس کو تحریف و تبدیلی کرنے کی جرات نہیں ہوگی کیوں کہ ہر ذی علم ایسی کسی غلطی کو پڑھ سکتا ہے او راگر اصل ساتھ نہیں ہو گا صرف ترجمہ ہی ہو گا تو کسی بد خواہ اور بددین کی ، کی ہوئی تحریف کو پکڑنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہو گا،ایسے ترجمے کی خریدوفروخت بھی جائز نہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : ( وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان). (المائدہ:٢)

فقہاء نے اسی قاعدے پر تصریح فرمائی ہے کہ جس شخص کو بھیک مانگنا حرام ہے اس کو بھیک دینا بھی حرام ہے ،کیوں کہ اگر دینے والے نہ دیں تو مانگنے والے مانگنا چھوڑ دیں گے، اسی طرح اس ترجمے کے متعلق بھی یہی سمجھنا چاہیے کہ ایسے ترجمے کو اگر کوئی شخص نہ قیمتاً لے اور نہ بلاقیمت، تو پھر ایسے تراجم کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور لیتے رہنے کی صورت میں سلسلہ جاری رہے گا ، پس ایسے ترجمے کا خریدنا یا ہدیہ میں قبول کرنا ایک امر ناجائز کی اعانت ہو گی اسے لیے یہ بھی ناجائز ہے۔

'' قال اشھب:سئل مالک: ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجاء ؟ فقال: لا إلا علی الکتبۃ الأولی، رواہ الداراني فی المقنع ثم قال: ولا مخالف لہ من علماء الأمۃ، وقال الإمام أحمد: یحرم مخالفۃ خط محصف عثمانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فی واو أو یاء أو ألف أو غیر ذلک۔

وقال البیہقی فی شعب الإیمان:: من یکتب مصحفا ینبغی أن یحافظ علی الہجاء التي کتبوا بہ تلک المصاحف، ولا یخالفہم ولا یغیر مما کتبوہ شیأا فإنہم کانوا أکثر علمًا، وأصدق قلبًا ولسانًا، وأعظم أمانۃ منا، فلا ینبغی أن نظن بأنفسنا استدراکا علیہم.'' (الإتقان فی علوم القرآن:٢/٣٣٨، النوع السادس، السبعون فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ دارذی القربی)

''قال المحقق ابن ھمام: وفي الکافي: إن اعتاد القرآن بالفارسیۃ أو أراد لن یکتب مصحفاً بھا یمنع، فإن فعل اٰیۃً أو اٰیتین لا، فإن کتب القرآن وتفسیر کل حرف وترجمتہ جاز.'' ( فتح القدیر، باب صفۃ الصلاۃ:١/٢٨٦، مصطفی البابی)

''قال اﷲ تعالی: (وَلا تَعاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ) قال الحافظ: یَأْمُرُ تَعَالَی عِبَادَہُ الْمُؤْمِنِینَ بِالْمُعَاوَنَۃِ عَلَی فِعْلِ الْخَیْرَاتِ وَہُوَ الْبَرُّ، وَتَرْکِ الْمُنْکِرَاتِ وَہُوَ التَّقْوَی وَیَنْہَاہُمْ عَنِ التَّنَاصُرِ عَلَی الْبَاطِلِ وَالتَّعَاوُنِ عَلَی الْمَآثِمِ وَالْمَحَارِمِ.''( تفسیر ابن کثیر٢/١٠، سورۃ المائدہ،٢، دارالفجاء).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی