قرآن خوانی کا مروّجہ طریقہ

قرآن خوانی کا مروّجہ طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ عزیز  و اقارب کی وفات پر لوگوں کو گھر پر قرآن پاک پڑھنے کے لیے بلوانا، پھر دعا کے  بعد کھانے، مشروبات یا کسی اورکھانے کا اہتمام کرنا ،یا یہ کہنا کہ حضرات افطاری کے لیے ضرور تشریف لائیں (رمضان میں )نہ کھانے والوں کو مجبور کرنا کہ کھا کر جائیں،خاص طور پر اس محفل میں اکثر وہی لوگ کھاتے ہیں، جو قرآن پڑھتے ہیں، قرآن اور سنت کی روشنی میں مندرجہ ذیل جواب ارشاد فرما کر شکریہ کا موقع دیں:

۱۔ ایسی قرآن خوانی صحابہؓ سے ثابت ہے؟

۲۔  قرآن پڑھنے کے بعد کھانے کے لیے بیٹھ جانا؟

۳۔  صاحب خانہ صرف قرآن خوانی کے لیے بلواتا ہے ،کھانے کے لیے مدعو نہیں کرتا،بغیر کھائے واپس جانا کیا خلاف ادب ہے؟

۴۔  دینی مدارس سے بچوں کو بلواکر قرآن خوانی کرانا اور ہدیہ دینا (جب کہ بچوں کو معلوم ہے کہ کچھ نہ کچھ ملے گا)۔

جواب

فی نفسہ قرآن کریم کی تلاوت ایصال ثواب کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، انفرادی طور پر تلاوت، تسبیح وتہلیل وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچانا حدیث سے ثابت ہے، لیکن قرآن خوانی کا جو مروّجہ طریقہ چل پڑا ہے کہ ایصال ثواب کے لیے اجتماع، اس میں مختلف قیود ورسوم، نیز اہل میت کی طرف سے دعوت وغیرہ یہ سب صحابہ رضی اﷲ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں ہیں،جہاں ہدیہ کے نام سے تلاوت کی اجرت کالین دین کیا جاتا ہے، ایسی تلاوت کا ثواب نہیں ملتا، نہ پڑھنے والوں کو نہ میت کو؛ لہٰذا قرآن خوانی اور اس کے بعد دعوت میں شرکت بدعت اور ناجائز ہے، اس میں شمولیت سے احتراز واجب ہے، میت کو ثواب پہنچانا ہی مقصد ہو تو   ہر شخص اپنے طور پر تلاوت واستغفار ، تسبیح وتہلیل اور صدقات نافلہ کے ذریعے اسے ثواب پہنچائے۔

'' ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع والأعباد واتخا والدعوۃ بقرآۃ القرآن وجع الصلحا، والقرأۃ للختم أو اسقرأۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص، فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قرا ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ.(ردالمحتار، باب صلوٰۃ الجنائز، ٢/٢٤٠، سعید)

''والأصل فی ھذا الباب، لأن الإنسان لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوٰۃ أو صوماً أو صدقۃ أوغیرھا عند أھل السنۃ والجماعۃ. ( الھدایۃ ، کتا الحج١/٢٩٦، شرکت علمیہ) (رد المحتار، کتاب الحج، ٢/٥٩٥، سعید)

''قال العلامۃ ابن عابدین ۔ رحمہ اﷲ۔ قال تاج الشریعۃ فی شرح الھدایۃ إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاری، وقال العینی فی شرح الھدایۃ، ویمنع القاری للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان، فإذا لم یكن للقاری ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب ملی المستاجر، ولو لا لاأجرۃ لما قرالأحدٍ فی ھذا الزمان. الخ'' (رد المحتار، کتاب الإجازۃ،٦/٥٦، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی