قبضہ سے پہلے گاڑی بیچنے کا حکم

قبضہ سے پہلے گاڑی بیچنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے بیرون ملک سے گاڑی منگوائی ہے، جو کہ زون میں کھڑی ہے، جس کے واگزار ہونے (کاغذات اور روٹ پرمٹ وغیرہ کے حصول) تک کم ازکم ایک ماہ لگ جاتا ہے،اب اس گاڑی کو یہ شخص دوسرے پر فروخت کرتا ہے اور باقاعدہ ایجاب وقبول کرتے ہیں کہ میں تم کو زون سے باہر آنے پر قبضہ دوں گا اور مشتری کہتا ہے کہ میں کل قیمت اس وقت ہی ادا کروں گا ،جب آپ قبضہ دیں گے،یعنی قبضہ کرانے کی مہلت لیتا ہے اور مشتری بھی اسی پر ادائے ثمن کو موقوف رکھتا ہے اور اگر یہی مشتری کل قیمت کی بجائے نصف یا بعض قیمت ادا کر دیتا ہے اور بعض قبضہ کرواتے وقت دیتا ہے تو یہ معاملہ درست ہے یا نہیں ہے؟

نوٹ: زون سے باہر آنے تک کی مدت میں کمی زیادتی ہوتی رہتی ہے۔

جواب

یہ معاملہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ جو گاڑی زون میں کھڑی ہے، وہ بیرون ملک سے منگوانے والے آدمی کے قبضہ میں نہیں ہوتی ہے، بلکہ واگزار ہونے تک حکومت کی تحویل میں ہوتی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ اشیاء منقولہ کی قبل القبض بیع کرنا جائز نہیں ہے اور گاڑی اشیاء منقولہ میں سے ہے۔

''عن ابن عباس، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یستوفیہ، قال ابن عباس:وأحسب کل شيء مثلہ''.(صحیح مسلم،کتاب البیوع،باب بطلان بیع المبیع قبل القبض: ٢/٥،سعید)

''ولایصح بیع المنقول قبل قبضہ من البائع قیدنا بالبیع؛ لأنہ لووھبہ أو تصدق بہ أو أقرضہ أورھنہ أوأعارہ من غیر البائع جاز عند محمد''.(النھر الفائق، کتاب البیوع، باب التولیہ: ٣/٤٦٣،رشیدیۃ)

''قولہ: (لا بیع المنقول) أي لا یصح لنہیہ-صلی اللہ علیہ وسلم- عن بیع ما لم یقبض؛ولأن فیہ غرر انفساخ العقد علی اعتبار الہلاک''.(البحرالرائق، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ: ٦/١٩٤، رشیدیۃ)

''ومن اشتری شیأ مما ینقل ویحول لم یجز لہ بیعہ حتی یقبضہ؛لأنہ نہی عن بیع ما لم یقبض،ولأن فیہ غرر انفساخ العقد علی اعتبار الہلاک''. (الھدایۃ، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ: ٣/٧٤، شرکۃ علمیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی