کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیادہ نمازوں کی قضاء کیسے کریں؟ چھ سال پہلے مدرسہ شروع کیا ہے اس سے پہلے بھی پڑھتا تھا لیکن گھر کیساتھ پڑھتا تھا، نمازوں کا بالکل اہتمام نہیں کرتا تھا، اور اس کے بعد جب گھر سے دور مدرسہ شروع کیا تب تو مدرسے پابندی سے نماز پڑھتا تھا ، لیکن جمعرات اور جمعے کو اکثر رہ جاتا تھا قضائی کی صورت بتائیں۔
واضح رہے کہ اگر کسی کے ذمے قضاء نمازیں اگر چھ نمازوں سے کم ہوں تو ان کو بالترتیب قضاء کیا جائے، اور اگر قضاء نمازیں زیادہ ہو اور تعداد بھی معلوم نہ ہو تو ان میں قضاء کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک وقت میں کئی کئی نمازیں پڑھے، بلکہ نوافل کی جگہ بھی قضاء نماز پڑھے، یہاں تک کہ اس کا دل مطمئن ہو کہ اب کوئی قضاء نماز اس کے ذمے باقی نہیں رہی، اور ہر قضاء نماز کے وقت نیت اس طرح کریں مثلاً: فجر کی سب سے پہلی قضاء نماز جو میرے ذمے باقی ہے اس کو پڑھتا ہوں ، اسی طرح سب نمازوں کی نیت کرے اور وتر نمازوں کی بھی قضاء کرے۔لما في جامع الترمذي:’’عن أبي عبيدة بن عبد الله بن مسعود قال: قال عبد الله بن مسعود إن المشركين شغلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أربع صلوات يوم الخندق حتى ذهب من الليل ما شاء الله فأمر بلالا فأذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ثم أقام فصلى المغرب ثم أقام فصلى العشاء‘‘.(أبواب الصلاة، باب ما جاء في الرجل تفوته الصلوات بأيتهن يبدأ، رقم الحديث:179، دارالسلام بيروت)وفي حاشية الطحطاوي على المراقي:’’خاتمة: من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء‘‘.(كتاب الصلاة، باب قضاؤ الفوائت، 125/2، رشيدية)وفي مراقي الفلاح:’’وإذا كثرت الفوائت يحتاج لتعيين كل صلاة‘‘.(كتاب الصلاة، باب قضاؤ الفوائت، 123/2، رشيدية)وفي المحيط البرهاني:’’إذا أراد أن يقضي الفوائت ذكر في «فتاوى أهل سمرقند»: أنه ينوي أول ظهر لله عليه، وكذلك كل صلاة يقضيها‘‘.(كتاب الصلاة، باب قضاؤ الفوائت، 99/2، المكتبة الغفارية)وفي الشامية:’’وأما النفل فقال في المضمرات الاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل إلا سنن المفروضة‘‘.(كتاب الصلاة، باب قضاؤ الفوائت، 74/2، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:192/300