عید کے دن کے مسنون اعمال کیا ہیں؟

عید کے دن کے مسنون اعمال کیا ہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ عید کے دن مسنون اعمال کیا  ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب

عید الفطر کے دن بارہ چیزیں مسنون ہیں ۔ ۱۔ شرع کے موافق آرائش کرنا۔ ۲۔ غسل کرنا۔ ۳۔ مسواک کرنا۔ ۴۔ عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس موجود ہوں ہو پہننا۔۵۔ خوشبو لگانا۔ ۶۔ صبح کو سویرے اٹھنا۔ ۷۔ عید گاہ میں بہت سویرے جانا۔ ۸۔ عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً چھوہارے وغیرہ کھانا۔۹۔ عید گاہ جانے سے قبل صدقہ فطر دے دینا۔۱۰۔ عید کی نماز بلاعذر شہر میں نہ پڑھنا ۔ ۱۱۔ جس راستے سے جائے اس کے علاوہ دوسرے راستہ سے واپس آنا۔ ۱۲۔ پیادہ جانا اور راستہ میں "اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ لَا إلَہَ إلَّا اللَّہُ وَاَللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ" آہستہ آہستہ پڑھنا،جہاں عید کی نماز پڑھی جائے وہاں نماز سے پہلے اور بعد کوئی اور نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں، تو وہ شخص تنہا نماز عید نہیں پڑھ سکتا، اس لیے کہ جماعت اس میں شرط ہے اور دوسرا عید گاہ جانا سنت مؤکدہ ہے، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی مقدس مسجد کو انتہائی فضیلت کے باوجود عیدین کے دن چھوڑ دیتے تھے اور عید گاہ تشریف لے جاتے تھے۔

عیدالفطر کی نماز دو  رکعت واجب نماز عید کی چھ واجب تکبیروں کے ساتھ نیت کی،نیت کے بعد ہاتھ باندھ لے، اور“ سبحانک اللّھم ”پڑھ کر تین مرتبہ "اﷲ اکبر "کہے اور ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور بعد تکبیر کے ساتھ لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر توقف کرے کہ تین مرتبہ "سبحانﷲ" کہہ سکیں،تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ لٹکانےکے بجائے باندھ لے اور" اعوذ باﷲ، بسم اﷲ" پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے پھر رکوع اور سجدے کرکے کھڑا ہو اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ فاتحہ اور سورت پڑھ لے، اس کے بعد تین تکبیریں اسی طرح کہے، جس طرح پہلی رکعت میں کہی ہیں، البتہ دوسری رکعت میں تیسری تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ باندھنے کے بجائے لٹکائے رکھے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے۔

''وَیُسْتَحَبُّ یَوْمَ الْفِطْرِ لِلرَّجُلِ الِاغْتِسَالُ وَالسِّوَاکُ وَلُبْسُ أَحْسَنِ ثِیَابِہِ۔۔۔جَدِیدًا کَانَ أَوْ غَسِیلًا۔۔۔وَیُسْتَحَبُّ التَّخَتُّمُ وَالتَّطَیُّبُ وَالتَّبْکِیرُ وَہُوَ سُرْعَۃُ الِانْتِبَاہِ وَالِابْتِکَارُ وَہُوَ الْمُسَارَعَۃُ إلَی الْمُصَلَّی وَأَدَاء ُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ وَصَلَاۃُ الْغَدَاۃِ فِی مَسْجِدِ حَیِّہِ وَالْخُرُوجُ إلَی الْمُصَلَّی مَاشِیًا وَالرُّجُوعُ فِی طَرِیقٍ آخَرَ۔۔۔وَلَا بَأْسَ بِالرُّکُوبِ فِی الْجُمُعَۃِ وَالْعِیدَیْنِ وَالْمَشْیُ أَفْضَلُ فِی حَقِّ مَنْ یَقْدِرُ عَلَیْہِ وَیُسْتَحَبُّ فِیْ عِیْدِ الْفِطْر أَنْ یَأْکُلَ قَبْلَ الْخُرُوجِ إلَی الْمُصَلَّی تُمَیْرَاتٍ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا.''(الھندیۃ،الباب عشر فی صلاۃ العیدین،١/١٤٩،١٥٠، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی