عید کے دن میت کے گھر تعزیت کے لیے جانے کا حکم

عید کے دن میت کے گھر تعزیت کے لیے جانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں رواج ہے کہ جب کسی گھر میں فوتگی ہوجاتی ہے، تو لوگ عید کے موقع پر میت کے ورثاء کے پاس جاتے ہیں (یعنی ان کے گھر جاتے ہیں) جبکہ میت کی وفات اور عید کے درمیان کافی وقت گزرچکا ہوتا ہے۔اب آیا کیا یہ رسم ٹھیک ہے؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ رسم بدعات میں سے ہے، جن سے شریعت میں منع کیا گیا ہے، بلکہ عید کے دن تو میت والوں کے گھر میں تعزیت کے لیے جانا گویا ان کے غم کو دوبارہ تازہ کرنا ہے ، اور یہ شریعت کی رو سے درست نہیں، لہٰذا اس قسم کے رسوم کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔
لما في التنویر مع الدر:
’’ولا بأس بتعزیۃ أھلہ وترغیبھم في الصبر وباتخاذ طعام لھم وبالجلوس لھا في غیر المسجد ثلاثۃ أیام، وأولھا أفضلھا وتکرہ بعدھا إلا لغائب، وتکرہ التعزیۃ ثانیاً‘‘.
قال إبن عابدین رحمہ اللہ:
’’(قولہ: بتعزیۃ أھلہ) أي:تصبیرھم والدعاء لھم بہ..... تستحب التعزیۃ للرجال والنساء اللاتي لایفتن.
(قولہ: وتکرہ بعدھا) لأنھا تجدد الحزن‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، مطلب في کراھیۃ الضیافۃ من أھل المیت:۳/۱۷۴،۱۷۷، رشیدیۃ).
وفي الدر المنتقیٰ في شرح الملتقی:
’’والتعزیۃ سنۃ: لحدیث من عزا مصابا فلہ مثل أجرہ..... ولا بأس بالجلوس لھا في غیر المسجد ثلاثۃ أیام وأولھا أفضل وتکرہ بالتعزیۃ ثانیا‘‘. (کتاب الصلاۃ، باب الجنائز:۱/۲۷۶،رشیدیۃ).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

161/316
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی