عیدکے دن زیارت قبور اور اگر بتی جلانے کا حکم

عیدکے دن زیارت قبور اور اگر بتی جلانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی گاؤں میں یہ طریقہ ہو کہ عیدین میں نمازِ فجر کے بعد یا عید کی نماز کے بعد لوگ قبرستان جاتے ہیں اور اپنے والدین یا کسی عزیز کے لیے وہاں دعا کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ’’اگر بتی‘‘بھی لے جاتے ہیں اور قبروں پرخوشبو کے لیے لگاتے ہیں ، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ زیارت قبور کے لیے قبرستان جاکر وہاں مردوں کے لیے دعائے مغفرت اور تلاوت کلام پاک کرنا کسی بھی دن جائز اور درست ہے، البتہ اس کو لازم اور ضروری سمجھنا اور عیدین کے دن کے ساتھ خاص کرنا جس طرح کہ آج کل ایک رسم اور رواج بن گیا ہے، درست اور جائز نہیں ہے، اور وہاں اپنے ساتھ اگر بتی وغیرہ لے جا کر اُسے جلانے کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل نہیں ہے اور یہ ایک قسم کا بے جا مال کا ضیاع بھی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
لما في الدر المختار:
’’کل مباح یؤدي إلیہ (الوجوب) فمکروہ‘‘.(باب سجود التلاوۃ:۳/۷۳،رشیدیۃ).
وفي حاشیۃ إبن عابدین:
’’(قولہ:وبزیارۃ القبور) أي: لا بأس بھا بل تندب بہ للأمر کما في البحر عن المجتبیٰ ، فکان ینبغي التصریح بہ للأمر بھا في الحدیث المذکور کما في الامداد، وتزار في کل أسبوع کما في مختارات النوازل. قال في شرح لباب المناسک: إلا أن الأفضل یوم الجمعۃ والسبت والاثنین والخمیس‘‘.(کتاب الصلوٰۃ، باب صلوٰۃ الجنازۃ ،مطلب في زیارۃ القبور:۳/۱۷۷،رشیدیۃ).
وفي الھندیۃ:
’’وإخراج الشموع إلی رأس القبور في اللیالی الأول بدعۃ ،کذا في السراجیۃ‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ:۹/۱۶۳،رشیدیۃ).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

159/7
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی