عورت کا چہرہ اور بازو چھپانے کا حکم، پر دے کے لیے کسی خاص طریقہ کی تعیین

عورت کا چہرہ اور بازو چھپانے کا حکم، پر دے کے لیے کسی خاص طریقہ کی تعیین

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔  اصل ستر سے مراد یہ ہے کہ عورت کے  ستر میں وہ مقامات  جو بلا اختلاف ( احناف کے ہا ں ) ستر  ہیں ۔ کیا عورت  جب اجنبی  کے سامنے چہرہ چھپائے یا بازو ، سینہ وغیرہ تو یہ چھپانا بوجہ فتنہ ہے یا بوجہ ستر  ہونے کے ہے؟

۲۔ ”قدیم مشرقی طرز “سے مراد وہ پردہ ہے ،جس کی نظیر آج کل کے زمانے میں پٹھان خواتین کے سر پر ٹوپی والا برقعہ ، ان وضاحت فرمادیجئے۔

۳۔ اور کیا پر دے کے  لیے برقعہ ہونا ضروری ہے ؟ کیا برقعہ کا کالا رنگ کا ہونا ضروری ہے؟ کیا برقعے میں مخصوص قسم کی چادر ، مخصوص قمیص ، مخصوص نقاب کا ہونا ضروری ہے ، یا ایک ہی بڑی چادر کے ذریعے مکمل پردہ کیا جاسکتا ہے ؟ رہنمائی فرمائیں  ۔

جواب 

۱۔ صورت مسئولہ میں  عورت کا اپنا چہرہ،ہتھیلیاں کو اجنبی شخص سے چھپانا بوجہ فتنہ کے ہے ، کہ جہاں فتنہ یعنی عورت کی طرف قریب ہونے کے میلان کا خطرہ  یا  احتمال ہو وہاں ممنوع ہے اور جہاں یہ احتمال نہ ہو تو جائز ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ اس زمانے میں ایسا احتمال نہ ہو،بالکل شاذ و نادر ہے، اس لئے متاخرین فقہاء حنفیہ نے بھی بالعموم  یہ حکم دے دیا کہ جوان عورت کے چہرے  اورہتھیلیوں  کی طرف  بلا ضرورت ِشرعیہ نظر کرنا حرام ہے۔

۲۔ جسم کو چھپانے کے لئے شریعت نے کوئی خاص طریقہ یا کپڑا متعین نہیں کیا ،لہذا جو چادر یا برقعہ عورت پہنے ،اس میں درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے:

(۱)عورتوں کا اس قدر بڑی چادر یا برقعہ کا اوڑھنا ضروری ہے جو کہ تمام بدن کو ڈھانپ دے،جبکہ وہ ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلیں۔

(۲) برقعہ یا چادر ایسی باریک نہ ہو جس سے اندر کے اعضاء ظاہر ہونے لگیں اور جسم کی ساخت واضح ہو۔

۳۔ ضرورت کے  تحت گھر سے باہر نکلنے والی عورتیں اس بات کا اہتمام کریں کہ جو چادر یا برقعہ  استعمال کریں وہ  ایسا خوبصورت اور عمدہ نہ ہو کہ اس کی بناء پر  لوگوں کو ان کی طرف نظریں اٹھا نے اور انہیں تاکنے کا موقع ملے،بلکہ عام معمولی سے برقعہ میں  باہر نکلیں اور کسی بھی قسم کی زیب و زینت اور خوشبو سے پوری طرح بچنے کا اہتمام کیا جائے۔

و في التنوير مع الرد:

(وللحرة) ولو خنثى (جميع بدنها)حتى شعرها النازل في الاصح (خلا الوجه والكفين) فظهر الكف عورة على المذهب (والقدمين) على المعتمد، وصوتها على الراجح،وذراعيها على المرجوح (وتمنع) المرأة الشابة (من كشف الوجه بين الرجال) لا لانه عورة بل (لخوف الفتنة).( بل لخوف الفتنة ) أي الفجور بهاقاموس أو الشهوة والمعنى تمنع من الكشف لخوف أن يرى الرجال وجهها فتقعالفتنة لأنه مع الكشف قد يقع النظر إليها بشهوة.(كتاب الصلاة،مطلب:في ستر العورة،2/98، ط:رشيدية)

و في احكام القران للتهانوي:

فعلم أن حكم الاية قرارهن في البيوت الا لمواضع الضرورة الدينية كالحج و العمرة .....نعم لا تخرج عند الضرورة أيضا متبرجة بزينة تبرج الجاهلية الاولى،بل فى ثياب بذلة متسترة بلبرقع أو الجلباب،غير متعطرة و لا متزاحمة فى جموع الرجال فلا يجوز لهن الخروج من بيوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب كل الاهتمام.(سورة الاحزاب،3/320،319،ط:ادارة القران كراتشي). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/84,85