عقدِ اجارہ میں اجرت مجہول ہونے کا حکم، اجرت میں تاخیر کی وجہ سے اضافی رقم لینا

Darul Ifta mix

 عقدِ اجارہ میں اجرت مجہول ہونے کا حکم، اجرت میں تاخیر کی وجہ سے اضافی رقم لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میرا  ایک پرائیوٹ سکول ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ والدین اکثر و بیشتر فیسیں لیٹ کر دیتے ہیں۔ ہمیں دس تاریخ کو اساتذہ وغیرہ کو تنخواہیں ، بلڈنگ کا کرایہ اور دیگر معاملات کلیئر کرنےکرنے ہوتے ہیں،دیر سے ادائیگی پر کوئی لیٹ فیس چارج نہیں کی جاتی،جس کی وجہ سے مکمل فیس کولیکشن میں 20سے  25 تاریخ ہو جاتی ہے۔ اب غور و فکر کے بعد یہ دو تجاویز ذہن میں آرہی ہیں:

1۔۔۔ والدین سے وقت ایڈمیشن یہ طے کر لیا جائےاس کلاس کی ہر ماہ کی ایک تاریخ  سے 10 تاریخ تک فیس 1000 ہوگی، 11 سے   20 تک 1100 اور 21سے  30 تک 1200ہوگی۔

2۔۔۔ پہلے سے فیس چالان میں 10 تاریخ کے بعد ادائیگی پر ایک متعین اضافی رقم درج کر دی جائےجو وہ لیٹ فیس کے طور پر ادا کرنے کے پابند ہوں، بعد ازاں وہ رقم کسی غریب کو ان کی طرف سے صدقہ کردی جائے۔ اب ان دونوں تجاویز کی شرعی حیثیت بیان فرماکر ممنون فرمائیں، نوازش ہوگی۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ کے اور بچوں کے سرپرستوں کے درمیان معاملہ عقد اجارہ کی حیثیت رکھتا ہے،اور عقد اجارہ میں اجرت پہلے سے متعین کرنا ضروری ہوتا ہے ،جب کے سوال میں ذکر کردہ پہلی تجویز میں اجرت یعنی فیس مجہول ہے، اس لیے یہ تجویز درست نہیں ،اور دوسری تجویزبھی ناجائز ہے،کیونکہ فیس لیٹ ہونے کی صورت میں اضافی رقم لینا یہ مالی جرمانہ ہے ،جو شرعا ناجائزہے،لہذا کوئی متبادل جائز صورت اختیار کی جائے،مثلا:فیس کی وصولیابی کے لیے بچوں کے سرپرستوں سے کہہ دیا جائے کہ مقررہ تاریخ پر اگر فیس جمع نہیں کی،تو بچےکا سکول سے اخراج کیا جائے گا۔

لما في التنوير مع الدر:

      (هي) لغة: اسم للأجرة....وشرعا:(تمليك نفع بعوض )وشرطها: كون الاجرة والمنفعة معلومتين لان جهالتهما تفضي إلى المنازعة.

    (كتاب الإجارة:9/9،5،رشيدية)

وفي المحيط البرهاني:

         وأما بيان شرائطها :فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزا عن المنازعة.

(كتاب الإجارة،الفصل الأول في بيان الألفاظ التي تنعقد الإجارة:11/217،إدارة القرآن)

وفي البحر:

                والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذالمال.

                 (كتاب الحدود،باب حد القذف،فصل في التعزير:5/67،رشيدية)۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 170/20