عشر کی ادائیگی سے پہلے اخراجات نکالے جائیں گے؟

Darul Ifta

عشر کی ادائیگی سے پہلے اخراجات نکالے جائیں گے؟

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کی زمین ہے اس زمین کی پیداوار حاصل کرنے کے بعد زمین کا مالک اس حاصل شدہ پیداوار سے اولاً کسان کی مزدوری، ٹریکٹر کا کرایہ دے کر پھر زکوٰۃ ادا کرے گا، یا پوری حاصل شدہ پیداوار سے عشر اور زکوٰۃ ادا کرے گا،پھر مزدور کی مزدوری اور ٹریکٹر کا کرایہ دے گا؟

جواب

فصل پر آنے والے اخراجات دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو فصل تیار ہونے تک ہوتے ہیں، مثلاً بیج، کھاد، چوکیداری، ہل چلانا وغیرہ، ان کو شامل کرکے عشر، یا نصف عشر نکالا جاتا ہے، اس کے بعد ان اخراجات کو منہا کیا جاتا ہے، دوسرے وہ اخراجات جو فصل تیار ہونے کے بعد اس کو کاٹنے او رمنڈی تک پہنچانے میں ہوتے ہیں ، مثلاً پھل اور سبزیوں کو اکٹھا کرنا، کریٹوں میں ڈالنا، گاڑی کا کرایہ، فصل کی کٹائی اور اتروائی کے اخراجات، تھریشر کا معاوضہ وغیرہ ان کو مستثنیٰ کرکے مابقی کا عشر دیا جائے گا،سوال میں ذکر کیے گئے اخراجات تیاری سے پہلے کے ہیں، لہٰذا ان کو شامل کرکے عشر نکالا جائے گا۔
''وکل شيء أخرجتہ الأرض مما فیہ العشر لا یحتسب فیہ أجر العمال ونفقۃ البقر؛ لأن النبي علیہ الصلاۃ والسلام حکم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنۃ فلا معنی لرفعہا''. (الھدایۃ، باب زکاۃ الزروع والثمار: ١/٢٠٣، شرکۃ علمیۃ)
''ولا یحتسب لصاحب الأرض ما أنفق علی الغلۃ من سقي أو عمارۃ أو أجرۃ حافظ بل یجب العشر في جمیع الخارج''. ( الفتاوي التاتارخانیۃ، کتاب العشر، ما یجب فیہ العشر ومالایجب: ٢/٢٤٦، قدیمی)
ولا ترفع المؤنۃ أي لا تحسب أجرۃ العمال ونفقۃ البقر، وکري الأنہار وأجرۃ الحافظ وغیر ذلک؛ لأن النبي ـ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ـ حکم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنۃ فلا معنی لرفعہا، أطلقہ فشمل ما فیہ العشر وما فیہ نصفہ فیجب إخراج الواجب من جمیع ما أخرجتہ الأرض عشرا أو نصفا''. (البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، باب العشر: ٢/٤١٦، رشیدیۃ)
وفي الرد: قولہ بلا رفع مؤنۃ أي یجب العشر في الأول ونصفہ في الثاني بلارفع أجرۃ العمال ونفقۃ البقر وکري الأنھار وأجرۃ الحافظ ونحو ذلک درر.قال في الفتح:یعني لا یقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلۃ المؤنۃ بل یجب العشر في الکل؛ لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام حکم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنۃ ولو رفعت المؤنۃ کان الواجب واحدا وھو العشر دائما في الباقي، لأنہ لم ینزل إلی نصفہ إلا للمؤنۃ والباقي بعد رفع المؤنۃ لامؤنۃ فیہ، فکان الواجب دائما العشر، لکن الواجب قد تفاوت شرعا فعلمنا أنہ لم یعتبر شرعا عدم عشر بعض الخارج وھو القدر المساوي للمؤنۃ أصلا.(رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب في حکم أراضي مصر والشام السلطانیۃ: ٢/٣٢٨، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer