طلبہ سے لیے گئے بقیہ پیسوں کا حکم

Darul Ifta mix

طلبہ سے لیے گئے بقیہ پیسوں کا حکم

سوال

 اسی طرح ایک طالب علم اپنے طالب علمی کے زمانے میں بعض طالب علموں کے لیے FA او رمیٹرک کے داخلے کرتے تھے اور وہ طلباء اس کو پیسے دیتے تھے لیکن داخلے کرانے کے بعد اس کے پاس ان کے کچھ پیسے بچ جاتے اور وہ طالب علم اس بچے ہوئے پیسوں سے اپنا کرایہ او رکھانا وغیرہ کی ضرورت پوری کرتے ،اور ابھی طالب علم کو معلوم نہیں کہ کس کس طالبِ علم سے پیسے لیے تھے، اب اس کا ادا کرنا کیسے ہو گا ، حالانکہ طالبِ علم اس کے ادا کرنے پر قادر نہیں ہے، اب وہ کیا کرے؟ تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔

جواب

اگر اس طالب علم نے اپنے اس عمل کے لیے پیسے مقرر کر رکھے ہوں کہ وہ فی داخلہ اتنے پیسے لیتا ہے تو داخلہ فیس کے علاوہ جو پیسے ہوں گے وہ اس کے اس عمل کی اجرت ہو گی، لہٰذا ان بچے ہوئے پیسوں کا اپنی ذاتی ضرورتوں میں خرچ کرنا اس کے لیے جائز ہے ، البتہ اگر وہ اپنے اس عمل کی اجرت نہ لیتا ہو اور لڑکوں کا کام احساناً کرتا ہو یا مقرر کردہ پیسوں سے زائد اس نے لیے ہوں اور وہ بچ گئے ہوں تو ایسی صورت میں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچ جانے والے پیسے ان لڑکوں کو واپس کرے، اور اگر اسے یاد نہیں کہ کن لڑکوں سے پیسے لیے ہیں تو اپنی طرف سے ان لڑکوں کا پتہ کروانے کی پوری کوشش کرے، اعلان کروائے اور اگر پھر بھی پتہ نہ چل سکے تواس زائد رقم کا حساب لگا کر صدقہ کر دے ، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر بعد میں کوئی لڑکا آکر اپنی رقم کا مطالبہ کرے اور صدقہ کی ادائیگی کو تسلیم نہ کرے تو اس کے پیسوں کی ادائیگی اس طالب علم کے ذمے لازم ہو گی۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی