طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنا

طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔ زید نے کسی شخص کو کہا کہ اگر میں تجھے نہ مارو تو میری بیوی کو طلاق، اب اگر زید اس شخص کو نہ مارے تو کیا اس کی بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی، اگر اس سے خلاصی کی کوئی صورت ہے تو بیان فرمائیں؟

۲۔ زید نے کہا اگر میں یہ پلاٹ خریدوں تو میری بیوی کو طلاق ہے اب زید کا والد جو کہ زید کے ساتھ کاروبار میں شریک ہے، اور دونوں مشترکہ کاروبار کرتے ہیں، اس زمین کو خریدنا چاہتا ہے، تو کیا اس کے خریدنے سے بھی زید کی بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی؟

جواب

۱۔ صورتِ مسئولہ میں زید کی بیوی کو فی الحال طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، یہاں تک کہ زید یا مذکورہ شخص مرجائے، تو مرنے سے تھوڑی دیر پہلے اس کی بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی۔

۲۔ زید اگرچہ والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں شریک ہے، لیکن پھر بھی والد کے پلاٹ خریدنے سے زید کی بیوی کو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

لمافي البحر:

«حلف أن يفعله في المستقبل وأطلقه، ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع الإياس عن البر، مثل: ليضربن زيدًا، أو ليعطين فلانة، أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما».(كتاب الأيمان، باب اليمين في الدخول والخروج: 4/524، رشيدية)

وفي البدائع:

ولو حلف لا يبيع، أو لا يشتري، فأمر غيره، ففعل فجملة الكلام فيمن حلف على فعل فأمر غيره، ففعل، إن فعل المحلوف عليه لا يخلو: إما أن يكون له حقوق أو لا حقوق له، فإن كان له حقوق؛ فإما أن ترجع إلى الفاعل، أو إلى الآمر أو لا، فإن كان له حقوق ترجع إلى الفاعل كالبيع، والشراء، والإجارة، والقسمة، لا يحنث».(كتاب الأيمان، فصل: الحلف على أمور شرعية: 3/131، مؤسسة التاريخ العربي).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 154/42،43