صدقہ فطر سے متعلق چند ضروری مسائل

صدقہ فطر سے متعلق چند ضروری مسائل

۱…بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں اس پر صدقہ فطر بھی واجب نہیں،حالاں کہ بہت سے لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ،مگر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔
۲…جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہو یا زکوٰۃ فرض نہ ہو ،لیکن اس کے پاس ضروری سامان سے زائد اتنا سامان ہو کہ اس کی قیمت ساڑھے باون (52.5) تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، تو اس پرصدقہ فطر واجب ہے ، چاہے وہ سامان تجارت کا مال ہو یا تجارت کا نہ ہواور چاہے اس پر پورا سال گزرچکا ہو یا نہ گزرا ہو۔
۳…کسی کے پاس اپنی رہائش کا بڑا قیمتی مکان ہے اور پہننے کے قیمتی کپڑے ہیں ،نیزگھریلو سامان ہے جو استعمال میں آتا رہتا ہے مگر زیور اور روپے نہیں یا کچھ سامان ضرورت سے زیادہ بھی ہے مگر ان کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم ہے تو ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب نہیں۔
۴…کسی کے پاس زیور اور روپے نہیں، نہ سامان تجارت ہے، مگر کچھ اور سامان ضرورت سے زیادہ ہے جس کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاند ی کی قیمت کے برابر ہے ،تو ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں مگر صدقہ فطر واجب ہے۔
اسی طرح کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک میں خود رہتا ہے او رایک خالی پڑا ہے یا کرایہ پر دیا ہوا ہے تو شرعاً دوسرا مکان ضرورت سے زائد ہے۔ اگر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، تو اس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے،البتہ اگر اسی مکان کے کرایہ پر اس کا گزارہ ہو تو یہ مکان بھی ضروری سامان میں داخل ہو جائے گا اور اس پر صدقہ فطر واجب نہ ہو گا۔
۵…کسی کے پاس ضروری سامان سے زائد مال اور سامان ہے، مگر وہ قرض دار بھی ہے تو قرضہ منہا کرکے دیکھیں کیا بچتا ہے ؟ اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زائد بچتا ہو تو صدقہ فطر واجب ہے اوراس سے کم بچے تو واجب نہیں ۔
۶…عید الفطر کے دن صبح صادق کے وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے،لہٰذا اگر فجر کا وقت آنے سے پہلے ہی کسی کا انتقا ل ہوگیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں، اس کے مال میں سے نہ دیا جائے۔ اور جو بچہ عید کے دن فجر کے وقت سے پہلے پیدا ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے اور جو بچہ فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد پیدا ہوا ،اس کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں۔
۷…مرد پر صدقہ اپنی طرف سے اور اپنی چھوٹی (نابالغ)اولاد کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے، بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، اگر بیوی یا بالغ اولاد کے پاس اتنا مال ہو کہ جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے تو وہ اپنا اپنا صدقہ فطر خو دادا کریں، البتہ اگر مرد اپنی بیوی اور بالغ اولاد کی طرف سے بھی ان کو بتا کر ادا کر دے، تویہ بھی درست ہے، ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا۔
۸… اگر چھوٹے (نابالغ) بچے کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس کے ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے ، مثلاً :اس کے کسی رشتہ دار کا انتقال ہوا، اس کی میراث میں سے  اس بچہ کو حصہ ملا،یا کسی اور طرح سے بچے کو مال مل گیا تو باپ اس بچہ کا صدقہ فطر اس کے مال میں سے ادا کرے، اپنے مال میں سے دینا ضروری نہیں ۔
۹…جس نے کسی وجہ سے روزے نہیں رکھے اس پر بھی یہ صدقہ واجب ہے او رجس نے روزے رکھے اس پر بھی واجب ہے، دونوں میں کچھ فرق نہیں ۔
۱۰… بہتر یہ ہے کہ عید الفطر کی نماز کو جانے سے پہلے ہی یہ صدقہ ادا کردیا جائے، اگر پہلے نہ دیا تو بعد میں ادا کر دیں، کسی نے عید کے دن سے پہلے ہی رمضان میں صدقہ فطر دے دیا تب بھی ادا ہو گیا، اب دوبارہ دینا واجب نہیں۔اگر کسی نے عید کے دن صدقہ فطر نہ دیا تو معاف نہیں ہوا، اب کسی  بھی دن دے دینا چاہیے۔
۱۱…صدقہ فطر میں اگر گندم دیں یا خالص گندم کا آٹا دیں، تو ایک شخص کی طرف سے ایک سیر ساڑھے بارہ چھٹانگ دیں، بلکہ احتیاطاً پونے دو کلو یا کچھ زیادہ دے دینا چاہیے ،کیوں کہ زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں، بلکہ بہتر ہے او راگر جو یا خالص جو کا آٹا دینا ہو تو اس کا دوگنا دینا واجب ہے ۔
۱۲…اگر گندم او رجو کے علاوہ کوئی اوراناج دینا ہو ،مثلاً :چنا، جو یا چاول وغیرہ،تو اتنا دیں کہ اس کی قیمت اتنے خالص گندم یا اتنے خالص جو کے برابر ہو جائے جتنا اوپر بیان ہوا۔اگر گندم یا جو نہیں دیے بلکہ اتنی خالص گندم یا جو کی قیمت دے دی، تو یہ سب سے بہتر ہے ۔
۱۳…قیمت چوں کہ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، لہٰذا ہر سال ادا کرنے کے وقت بازار سے خالص گندم کی قیمت معلوم کرکے عمل کیا جائے۔ آج کل راشن کا آٹا چوں کہ خالص گندم کا نہیں ہوتا، لہٰذا اس کی قیمت کا اعتبار نہیں۔
اوپر جو مقدار بیان کی گئی یہ ایک شخص کا صدقہ فطر ہے، جس مرد پر صدقہ فطر واجب ہو، اگر اس کی نابالغ اولاد بھی ہے تو ہر بچہ کی طرف سے بھی اتنا ہی صدقہ فطر واجب ہے۔
۱۴…ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک ہی فقیر کو دیں، یا تھوڑا تھوڑا کرکے کئی فقیروں کو دے دیں، دونوں طرح جائز ہے۔ اگر کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک ہی فقیر کو دے دیا ، تو یہ بھی درست ہے ۔
۱۵…صدقہ فطر ان ہی لوگوں کو دیا جاسکتا ہے جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔فقط۔ واللہ اعلم بالصواب۔

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی