شک کی بنیاد پر حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی

شک کی بنیاد پر حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے ڈھائی سال کی عمر سے پہلے اپنی نانی کے سینے کے ساتھ ایک دفعہ منہ لگایا تھا (یعنی پستان کو منہ میں لیا تھا) اس وقت اس کی نانی کا سینہ بالکل خشک تھا،اور اس کے خشک ہونے پر دو عورتیں بھی گواہ ہیں جو کہ اسی عورت کی بیٹیاں ہیں جس طرح زید نے نانی کے سینے کے ساتھ منہ لگایا تو رضاعت کے خوف سے دونوں عورتوں نے باری باری سے زید کی نانی کے سینے کا چیک اپ کیا۔

ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ سینہ بالکل خشک تھا اور دوسری کہ رہی ہے کہ جب میں نے اور زور سے دبایا تو کچھ گیلا پن محسوس ہوا یعنی زرد قسم کا پانی تھوڑی مقدار میں نکل آیا جس کی بنا پر مجھے کچھ گیلا پن محسوس ہوا،تو کیا ایسے حالات میں رضاعت ثابت ہوتی ہے؟

وضاحت: مستفتی نے بتایا کہ دودھ پلانے والی (نانی) کے ہاں چھ سال پہلے ایک بچی کی ولادت ہوئی تھی۔ مزید یہ بھی بتایا کہ نانی کو خود اس پر شک ہے کہ بچی نے دودھ پیا بھی ہے کہ نہیں اور جس عورت نے کہا تھا کہ زرد قسم کا پانی نکلا ہے، اسی عورت نے یہ بھی کہا تھا کہ دودھ نکلا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ رضاعت کے ثابت ہونے کے لیے بچی کا دودھ پینے کا یقین ہونا ضروری ہے، محض شک کے بنا پر رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں رضاعت ثابت نہیں ہوئی ہے، تاہم دودھ کے ہونے اور نہ ہونے میں شبہ ہے، اس لیے رشتہ سے اجتناب کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

لما في خلاصة الفتاوى:

«والقليل والكثير سواء، أما المرأة إذا أدخلت حلمة ثديها في فم الصبي، ولا تدري أدخل اللبن حلق الصبي أم لا؟ لا يثبت حرمة الرضاع». (الفصل الرابع: الرضاع: 2/11، رشيدية)

وفي الفتاوى الولوالجية:

امرأة أدخلت حلمة ثديها في فم رضيع ولا تدري أدخل اللبن في حلقه أم لا؟ لا يحرم النكاح؛ لأنه في المانع شك».(كتاب النكاح، الفصل الرابع: في الرضاع... إلخ: 1/364، فاروقية)

وفي مجمع الأنهر:

(و) الرضاع (يثبت حكمه)، وهو حل النظر وحرمة المناكحة (بقليله) هو ما يعلم وصوله إلى الجوف، ولوقطرة، وإن لم يثبت لم يعلم الحرمة».(كتاب الرضاع: 1/551، غفارية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 154/91