کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو الگ طلاق دی ہے اور اس کے بعد اس نے اپنی بیوی والدین کے گھر بھیج دیا اور کہا تجھے ایک طلاق ہے، دو میری پاس باقی ہیں تو اپنے والدین کے گھر چلی جا۔ یہ پہلی طلاق کا وقوع27/5/2024 کو ہوا اس کی بعد اس شوہر نے اپنی بیوی سے کسی بھی قسم کا رجوع تا حال نہیں کیا ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ بیوی کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں اگر عورت کی عدت پوری ہوچکی ہے تو وہ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے اور اگر عدت چل رہی ہو تو پھر وہ نکاح نہیں کرسکتی،نیز اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو دوران عدت اپنے کسی قول یا فعل کے ذریعہ رجوع کرسکتا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے تو پھر صرف باہمی رضا مندی سے تجدید نکاح کے ذریعہ رجوع کرے گا۔لما في التنوير مع الدر:
’’(طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطئ فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن)‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب طلاق الدور: 420/4: رشيدية).
وفي التنوير مع الرد:
’’(ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة‘‘.(كتاب الطلاق،مطلب طلاق الدور: 419/4:رشيدية).
وفيه أيضا:
’’{ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235] يعني انقضاء العدة عام، فكيف جاز للزوج تزوجها في العدة والنص بعمومه يمنعه، والجواب أنه خص منه العدة من الزوج نفسه بالإجماع‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب في العقد على المبانة: 43/5:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/325