سمندری جہاز بندرگاہ (اسٹیشن) پر کھڑا ہو تو جمعہ کی نماز کا حکم

سمندری جہاز بندرگاہ (اسٹیشن) پر کھڑا ہو تو جمعہ کی نماز کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ جہاز پندرہ دن سے کم اپنے اسٹیشن پر کھڑا ہو، اس دوران جمعہ کا دن آجائے تو ہم جہاز پر جمعہ ادا کریں گے یانماز  ظہرادا کریں گے؟

جواب

اصل جواب دینے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری ہے، کہ جہاز کھڑے ہونے کا اسٹیشن مصر(شہر) یا فناء مصر میں داخل ہے یا نہیں؟
فقہاء کرام رحمہم اللہ فناء مصر(شہر کے مضافات) کے بارے میں فرماتے ہیں:
کہ وہ بندرگاہ (اسٹیشن) کسی شہریا گاؤں کے متصل ہو، یعنی شہر کی آبادی کا سلسلہ وہاں تک پھیلا ہوا ہو، اور اسٹیشن اس کے متصل ہو، اور اگر متصل نہ ہو، تو شہریا گاؤں والوں کی ضروریات وحوائج اس سے متعلق ہوں، تو اس صورت میں بندرگاہ (اسٹیشن ) فناء مصر کے حکم میں ہوگا۔
صورت مسئولہ میں جب جہاز شرعی مسافت طے کر کے پندرہ دن سے کم اپنے اسٹیشن پر کھڑا ہو، اور اسٹیشن فناء مصر کی حدود میں ہو، تو اگر جہاز میں موجود عملہ (ملازمین) اسی بندرگاہ کے ساتھ متصل شہر کا رہنے والا ہو، تو ان پر جمعہ کی نماز ادا کرنا ضروری ہے، اور جہاز کا وہ عملہ (ملازمین) جو دور کسی شہر یا گاؤں سے شرعی مسافت طے کر کے آئے ہوں، تو ان کے لیے جمعہ کی نماز ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اس صورت میں اگر جمعہ کی نماز مقیمین کی اقتداء میں پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں، وگرنہ ظہر کی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔
نوٹ:نماز کی ادائیگی کے لیے مستحب یہ ہے کہ جہاز سے اتر جائیں، جب تک خروج ممکن ہو، خروج ممکن نہ ہونے کی صورت میں جہاز پر نماز ادا کریں۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي‘‘.
وقال إبن عابدین رحمہ اللہ:
’’فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ.ملخصا من تحفة أعيان الغني بصحة الجمعة والعيدين في الفناء للعلامة الشرنبلالي‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ:۳/۸،۹،رشیدیۃ).
وفي الھندیۃ:
’’ولا یصیر مقیما بنیۃ الإقامۃ فیھا وکذلک صاحب السفینۃ والملاح إلا أن تکون السفینۃ بقرب من بلدتہ أو قریتہ فحینئذ یکون مقیما بإقامتہ الأصلیۃ.
أما الصلاۃ في السفینۃ فالمستحب أن یخرج من السفینۃ للفریضۃ إذا قدر علیہ کذا في محیط السرخسي‘‘. (کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر:۱/۲۰۴،دارالفکر بیروت).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

164/164
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی