سعی میں چار چکر چھوڑنے پر دم لازم ہوتا ہے

سعی میں چار چکر چھوڑنے پر دم لازم ہوتا ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ:

میرے والد صاحب ماہ نومبر میں عمرہ کرنے کے لیے گئے تھے، پہلے عمرہ میں اس طرح ہوا طواف کے بعد سعی میں صرف تین چکر لگائے ،گھٹنوں میں درد کی وجہ سے چار چکر چھوڑ دیے۔پوچھنا یہ ہے کہ اب کیا حل ہوگا؟
1۔ کوئی فدیہ دینا واجب ہوگا یا نہیں؟
2۔ اگر کوئی دم واجب ہوگیا ہے تو اس کی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی؟
یہاں اگر کسی مدرسہ میں دم کی رقم طلباء پر خرچ کی جائے تو واجب دم پورا ہوجائیگا یا نہیں؟
مہربانی فرما کر پوری تفصیل سے جواب ارسال کردیں بہت پریشانی میں ہیں صاحب عمرہ۔

صاحب عمرہ خود زکوٰۃ کا مستحق ہے اس صورت میں بھی دم ادا کرنا فرض ہوگا یا نہیں؟ مکمل مسئلہ میں رہنمائی درکار ہے۔

۱…… واضح رہے کہ صفا مروہ کے درمیان سات چکر لگانا واجب ہے، بغیرعذر کے چھوڑنے سے دم لازم ہوتا ہے، ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے رہ گئے، تو کوئی چیز لازم نہیں ہوتی ہے، لیکن صورت مسئولہ میں آپ کے والد صاحب اگر چہ خود سعی نہیں کرسکتےتھے، لیکن سعی کروانے والے موجود تھے، ان سے خدمت حاصل کرتے، اس کے باجود انہوں نے سعی کو چھوڑ دیا، اس وجہ سے ان پر دم لازم ہے۔
۲……یہ دم جنایت ہے، حدود حرم میں اس کو ذبح کرنا اور وہاں کے فقراء پر صدقہ کرنا ضروری ہے، کہیں اور رقم دینے سے دم ساقط(ختم) نہیں ہوگا۔
لما في الشامي:
” أو ترك (السعي) أو اكثره او ركب فيه بلا عزر، قوله: (بلا عذر) قيد للترك والركوب، قال في الفتح عن البدائع: وهذا حكم ترك الواجب في هذا الباب، أي: إن تركه بلا عذر لزمه دم، وإن بعذر فلا شيء عليه مطلقًا“.(كتاب الحج، باب الجنايات: ۳/۶۶۵،وحيدية)
وفي غنیۃ الناسک:
’’ولو ترك السعي كله او اكثره فعليه دم، وحجه تامُّ عندنا ولو تركه لعذر كالزمن إذا لم يجد من يحمله لا شيء عليه“.(کتاب الحج: ۱/۴۳۰،دار النشر)
وفي البحر الرائق:
”ولا فوت لعمرة، وهي طواف وسعي، أي افعال العمرة، طواف بالبيت سبعة اشراط وسعي بين الصفا والمروة..... وأما السعي فواجب، وإنما لم يصرح بوجوبه للعلم به من الحج لأن السعي فيه واجب نفي العمرة أولى“.(كتاب الحج، باب الفوات، ۳/۳۰۱: رشيدية)
وفية أيضًا:
قوله:(أما إذا ترك واجبا لعذر فإنه لا شيء عليه) قيد بالواجب لأنه لو إرتكب محذورًا لعذر فإنه لا يسقط الجزاء كما في اللباب“. (كتاب الحج، باب الجنايات، ٣/۴۰: رشيدية)
وفي غنیۃ الناسک:
والثامن: ذبحه في الحرم، فلو ذبح في غيره لا يجزئه عن الذبح، إلا إذا تصدق بلحمه على ستة مساكين على كل واحد منهم قدر قيمة نصف صاح حنطة فإنه يجوز بدلا عن الإطعام“ (باب الجنايات، فصل في شرائط كفاراتها الثلاث،مطلب في شرائط جواز الدم: ۱۰/۴۰۹، درالنثر).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:154/112

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی