سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم استغفراللہ کی سندی حیثیتکیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بہت تنگ دست ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ تسبیح تمہیں یاد نہیں جو تمام فرشتوں اور مخلوقات کی تسبیح ہے، جس کی وجہ سے ان کو رزق دیا جاتا ہے؟
حضرت ابن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تسبیح کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح صادق طلوع ہونے کے بعد صبح کی نماز پڑھنے تک یہ کلمات سو مرتبہ پڑھو: سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم استغفر الله۔ تو دنیا تیرے پاس ذلیل اور خوار ہو کر آئے گی، ہر تسبیح سے ایک فرشتہ پیدا ہو گا جو قیامت تک یہ تسبیح پڑھتا رہے گا۔
بعض روایات میں اس کے آخر میں یہ بھی اضافہ ہے وہ بندہ کچھ مدت کے بعد آیا اور عرض کیا یارسول اللہ: میرے پاس اتنی دنیا آئی کہ میں نہیں جانتا کہ اسے کہا ں رکھوں۔
واضح رہے کہ یہ روایت تلاش بسیار کے بعدمؤطا مالک کے محقق حضرت مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی صاحب رحمہ اللہ کے مؤطا کی ابتدا میں لکھے ہوئے مقدمے اور امالی ابن بشران میں ملی۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:[عن مالك بن أنس، عن نافع، عن ابن عمر، قال شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وأتاه رجل، فقال يا رسول الله قلّت ذات يدي. فقال أين أنت عن صلاة الملائكة، وتسبيح الخلائق التي بها يرزقون؟ قال ابن عمر فاغتنمت، فقلت يا رسول الله ما هو؟ فقال يا ابن عمر من حين يطلع الصبح إلى حين يصلي الفجر، سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم استغفر الله، مائة مرة تأتيك الدنيا صاغرة راغمة، ويخلق من كل [تسبيح] ملك يسبح إلى يوم القيامة].
اس روایت کو امام مالک رحمہ للہ سے عبداللہ بن نافع الجمحی المدنی اور اسحاق بن ابراہیم الطبری نے نقل کیا ہے، عبداللہ بن نافع الجمحی المدنی کے احوال ہمیں تلاش بسیار کے باوجود بھی نہیں ملے۔ جہاں تک اسحاق بن ابراہیم کی بات ہے تو اس پر محدثین نے سخت جرح کی ہے: امام عدی رحمہ اللہ نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے، اسی طرح کتاب المجروحین میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ثقہ راویوں کی طرف سے موضوع روایات بیان کرتا تھا، لہذا اس منکر راوی کی وجہ سے اس حدیث کو بیان نہیں کر سکتے۔
علاوہ ازیں اس روایت پر بھی محدثین نے سخت کلام کر کے اس روایت کو امام مالک رحمہ اللہ پر موضوع قرار دیا ہے، چنانچہ لسان المیزان، کتاب المجروحین اور ذیل میزان الاعتدال میں اس حدیث کو بے اصل قرار دیا ہے:
لسان المیزان میں اس روایت کو ذکر کر کے مصنف نے فرمایا: ’’وقال لا يصح عن مالك، ولا أظن إسحاق لقي مالكا، وقد رواه جماعة بأسانيد كلها ضعاف‘‘.(لسان الميزان، من اسمه عبدالله، 29/2، دار البشائر)
اسی طرح کتاب المجروحین میں بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: ’’أما الحديث الأول فلا أصل له بحيلة،لأشك أنه موضوع على مالك‘‘.(کتاب المجروحین: 148/1، دارالصميعي)
ذیل میزان الاعتدال میں بھی اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس پر کلام کیا گیا ہے: ’’رواه الخطيب في أسماء من روى عن مالك من رواية يزيد بن أبي حكيم عن إسحاق هذا، وقال غير محفوظ عن مالك‘‘.(ذیل میزان الاعتدال، راوي:171، ص:124، تراث الإسلامي).
مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ؛لہذا اس کا بیان کرنا جائز نہیں۔لما في میزان الاعتدال:’’إسحاق بن إبراهيم الطبري، كان بصنعاء. قال ابن عدى: منكر الحديث...... وأنبأنا المفضل الجندي، حدثنا إسحاق الطبري، حدثنا عبدالله بن الوليد العدنى، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكى إليه دينا وفقرا، فقال: أين أنت من صلاة الملائكة. وذكر الحديث.وهذا باطل.وقال الدارقطني: منكر الحديث.وقال ابن حبان: يروى عن ابن عيينة، والفضيل بن عياض، منكر الحديث جدا، يأتي عن الثقـتات بالموضـوعات، لا يحل كتب حديثه إلا على جهة التعجب‘‘.(جلد: 177/1، راوي:719، دارالفكرالعربي)وفي كتاب المجروحين:’’شيخ سكن اليمن، يروى عن ابن عيينة، والفضيل بن عياض، منكر الحديث جدا، يأتي عن الثقات بالموضوعات، لا يحل كتابه حديثه إلا على جهة التعجب..... أما الحديث الأول فلا أصل له بحيلة،لأشك أنه موضوع على مالك‘‘.( کتاب المجروحین: 1 /147،148، دارالصميعي).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:191/289