زیورات اور سونے کی خریدوفروخت سے متعلق احکام

زیورات اور سونے کی خریدوفروخت سے متعلق احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسائل کے بارے میں کہ

(الف) میں ایک سنار ہوں اور سونا بنانے کا کام کرتا ہوں، ہم لوگ مندرجہ ذیل شرائط کے مطابق کام کرتے ہیں:

۱۔ پاسہ کے زیورات کی واپسی پر بیس پیسے فی روپے کاٹ لیا جائے گا۔

۲۔ پونڈ کے زیورات پر واپسی پچیس پیسے فی روپیہ کاٹ لیا جائے گا۔

۳۔ پرانے زیو رکو توڑ کر نئے زیورات تیا رکرانے پر پاسہ ۲  ماشہ اور پونڈ پر ۳ ماشہ فی تولہ کاٹ لیا جائے گا۔

۴۔ زیورات کے گس جانے کی وجہ سے وزن کی کمی کا دکان دار ذمے دار نہ ہو گا۔

۵۔خریدار زیور خریدتے وقت وزن کی تسلی دھیان سے کانٹے پر کرسکتا ہے۔

۶۔ تیار شدہ زیورات پر پالش کی اجرت علیحدہ وصول کی جائے گی۔

۷۔ اپنی دکان کا بنا ہوا پرانا مال ہر دکان دار خود خرید سکتا ہے۔

۸۔ پرانے زیورات، انجمن کی با قاعدہ مہر شدہ رسید پر ( جو لکھا ہو گا) اس اصول کے مطابق خریدے جائیں گے۔

۹۔ ان تمام شرائط کا گاہک اور دکان دار پابند ہو گا۔

۱۰۔ ہر دکان دار صراف اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے اصولوں کا پابندہو گا،کیا ان شرائط کے مطابق کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(ب) اسی طرح یہ بھی پوچھنا ہے کہ بندے کی دکان میں سو فی صد سونے میں سے پچیس فی صد سونا ذاتی ہے اور پچیس فی صد سونا گاہک کا پڑا ہوا ہے، گاہک مثلاً تین تولہ سونا یا بیس ہزار روپے یا اس سے کم وبیش روپے یا سونا دے کر کہتا ہے کہ میرے لیے ایک سونے کا سیٹ بنا دو،ایک مہینے یا تین چار مہینے بعد رقم مل جائے تو ادا شدہ سیٹ سونے کالے جاؤں گا، گاہک اس رقم یا تین تولے سونے کو ایڈوانس کے طور پر رکھتا ہے، پھر جب ان کو مہینے بعد رقم مل جائے تو ایڈوانس شدہ مال کو اسی ادا شدہ سیٹ کی قیمت میں لگا دیتے ہیں۔

آیا ایڈوانس شدہ مال کو سیٹ واپس کرنے سے پہلے اپنے استعمال میں اس کی یعنی گاہک کی اجازت یا گاہک کی اجازت کے بغیر استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں او راس سے منافع حاصل کرنا شریعت کے لحاظ سے جائز ہے یا نہیں؟

(ج) گاہک کو سونا ادھار پر دینا بایں طور کہ وہ گاہک کہے کہ جب بھی رقم مل جائے تو میں قیمت ادا کروں گا اور سونا قیمت کے ادا کرنے سے پہلے لے جائے تو آیا شریعت کی رو سے بیع وشراء منعقد ہو گی یا نہیں؟ اس میں قباحت کا شائبہ تو نہیں پایا جارہا ہے؟

(د)گاہک اگر وقت متعین کرے کہ فلاں مہینے ( یعنی اگست) مثلاً کہ قیمت ادا کروں گا اور سونا قیمت کی ادائیگی سے پہلے لے جائے، آیا یہ بیع درست ہے ،یا نہیں؟ بعض لوگ تو اسی بیع کے وقت نصف قیمت یا اس سے کم رقم ادا کرتے ہیں، بقایا رقم دینے کا وقت متعین کرتے ہیں اور بعض لوگ باوجود یہ کہ وقت متعین کیا ہے ،پھر بھی قیمت ادا نہیں کرتے ہیں۔

(ہ) کتنے تولے سونا یا چاندی میں زکوٰۃ واجب ہے؟ آیا سال کا گزرنا ضروری ہے جب کہ سونے کا نصاب پورا ہو تو اگر سال سے پہلے زکوٰۃ ادا کریں آیا زکوٰۃ ادا ہو گی یا نہیں؟

(و) ہماری دکان میں ۱۰۰ میں سے ۲۵  فی صد دکان دار کا ذاتی سونا ہے،  ۲۵  فی صد ڈیڑھ ماہ میں ادائیگی ہو جاتی ہے ، اب زکوٰۃ کس قدر سونے پر ہے؟

(ح) ہم جب بڑے سناروں سے سونا خریدتے ہیں تو ادائیگی سونے میں کرتے ہیں، یعنی آہستہ آہستہ ہر ہفتے یا دو مہینے میں کچھ سونا دے دیتے ہیں،اس طرح بڑے سناروں سے خریدے گئے سونے کی قیمت ادا کرتے ہیں، چھوٹے سناروں سے جب خریدتے ہیں تو قیمت مقرر کرکے آہستہ آہستہ انہیں رقم ادا کرتے ہیں، کیا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب

۱،۲۔ بغیر کسی عیب کے زیورات کی واپسی پر  ۲۰ پیسے یا ۲۵  پیسے فی روپے کاٹنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ واپسی اصطلاح شریعت میں اقالہ ہے او راقالہ پہلی قیمت پر ہوتا ہے، اگر پہلی قیمت سے کم قیمت پر لے لے تو یہ جائز نہیں،پہلی قیمت پر واپس کرنے پر حدیث مبارک میں فضیلت بھی آئی ہے،جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :”جس شخص نے کسی ایسے مسلمان سے اقالہ (یعنی سودا ختم)کیا جو خریدنے کی وجہ سے نادم وپریشان ہے تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو معاف فرما دیں گے”۔

”قولہ:(وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأکثر أو الأقلّ بلا تعیب وجنس آخر لغو ولزمہ الثمن الأول، وہذا عند أبي حنیفۃ؛ لأن الفسخ یرد علی عیب ما یرد علیہ العقد فاشتراط خیارہ باطل، ولا تبطل الإقالۃ”. (البحر الرائق، کتاب البیوع، باب الإقالۃ: ٦/١٧٣، رشیدیۃ)

”الإقالۃ جائزۃ في البیع بمثل الثمن الأول؛ لقولہ علیہ السلام:من أقال ناد ما بیعتہ، أقال اللہ عثرتہ یوم القیامۃ”.ولأن العقد حقہما فیملکان رفعہ دفعًا لحاجتہما، فإن شرطا أکثر منہ أو أقلّ فالشرط باطل ویرد الثمن الأول”.(الہدایۃ، کتاب البیوع: ٣/٧١، شرکۃ علمیۃ ملتان)

”عن أبي ہریرۃ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من أقال مسلما أقالہ اللہ عثرتہ یوم القیامۃ”.(سنن ابن ماجہ، أبواب التجارات، باب الإقالۃ، رقم: ٣١٩٩)

(ولو دفع غزلا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطعن برّہ ببعض دقیقہ) فسدت في الکل؛ لأنہ استأجرہ بجزء من عملہ، والأصل في ذلک نہیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن قفیز الطحان وقدمناہ في بیع الوفائ، والحیلۃ أن یغرز أولا أو یسمی قفیزًا بلا تعیین ثم یعطیہ قفیزًا منہ فیجوز”.

(قولہ: والحیلۃ أن یغرز الأجر أولا) أي ویسلمہ إلی الأجیر فلو خلطہ بعد وطحن الکل ثم أفرز الأجرۃ ورد الباقي جاز، ولا یکون في معنی قفیز الطحان”.(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ: ٦/٥٦، ٥٧، سعید)

”والإنسان لا یجبر علی تحمل الضرر”.(رد المحتار، کتاب الشرکۃ، مطلب الحق أن الدین یملک: ٤/٣٠١)

”والأصل فیہ أن الإجارۃ إذا وقعت علی عمل فکل ما کان من توابع ذلک العمل ولم یشترط ذلک في الإجارۃ فالمرجع فیہ العرف، کذا في المحیط”.(الہندیۃ، کتاب الإجارۃ: ٤/٤٥٥، رشیدیۃ)

۳۔ پرانے زیورات کو توڑ کر نئے زیورات بنانے پر ۲ ماشہ یا ۳ ماشہ کاٹنا جائر نہیں، البتہ زیورات بنانے کی جو بازار میں اجرت ہے ،وہ نقد کی صورت میں لے لی جائے۔

۴،۵۔ خریدار کو جب خریدتے وقت سنار وزن پر پورا دے دیتا او ربعد میں خریدار کے استعمال کی وجہ سے زیورات گس جائیں تو سنار پر وزن کا پورا کرنا ضروری نہیں۔

۶۔ تیار شدہ زیورات پر پالش کی اجرت علیحدہ وصول کرنا جائز ہے ،کیوں کہ عرف میں اس کی اجرت علیحدہ وصول کی جاتی ہے۔

۷۔ پرانا مال جو اپنی دکان کابنا ہوا ہو اس کے دوبارہ خریدنے میں کچھ حرج نہیں۔

۸،۱۰۔جائز اور شریعت کے مطابق اصول اور شرائط کی پابندی ضروری ہے، اگر اصول وشرائط شریعت کے منافی ہوں تو ان اصولوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔

(ب) آرڈر دیتے وقت بطور ایڈوانس دی گئی رقم اسی آرڈر شدہ سیٹ کی قیمت ہوتی ہے، لہٰذا اسے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، البتہ بطور ایڈوانس دیے گئے سونے کا استعمال جائز نہیں، اگر گاہک وہ سونا سنار کو فروخت کرکے اس کی قیمت بطور ایڈوانس رکھوائے تو پھر اس کا استعمال بھی درست ہے۔

(ج) مذکورہ طریقے پر بیع جائزنہیں اس لیے کہ قیمت کی ادائیگی کے لیے وقت کا متعین ہونا ضروری ہے۔

(د) درست ہے، البتہ بلاعذر مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے والوں کو وعدہ خلافی کا گناہ ہوگا۔

(ہ) اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو اور نقدی وچاندی وغیرہ نہ ہو تو نصاب زکوٰۃ ساڑھے سات تولے (۴۸ئ۸۷گرام)سونا ہے۔

بصورت دیگر سونے کے ساتھ چاندی یا کچھ نقدی ہو اور مجموعے کی قیمت ساڑھے باون تولے (۳۶ئ۶۱۲) چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو زکوٰۃ واجب ہے۔ نصاب پورا ہونے کی بنا پر سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنا درست ہے۔

(و)٢٥ فی صد ذاتی سونے کا سال پورا ہونے سے پہلے اگر ادھار خریدے گئے ۵۰ فی صد سونے کی رقم ادا کر دی تو ۷۵ فی صد سونے کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔ واضح رہے کہ دوران سال نقد یا ادھار خریدے گئے سونے کے لیے مستقل سال گزرنا ضروری نہیں، بلکہ پہلے سے مِلک میں موجود سونے کا سال پورا ہوتے ہی اس کی زکوٰۃ دینا بھی ضروری ہے۔ اس طرح زکوٰۃ سے بچنے کے لیے ادھار خریدے گئے سونے کی رقم ادا کرنے پر قادر ہونے کے باوجود رقم ادا نہ کرنا جائز نہیں۔

(ج) قیمت کے بدلے ادھار سونا خریدنا درست ہے، لیکن سونے کے بدلے ادھار سونا خریدنا جائز نہیں، البتہ سناروں سے سونا خریدتے وقت اس کی قیمت متعین کر دی جائے، پھر اس متعین قیمت کے بدلے سونا دیا جائے تو جائز ہے۔

(٦) ''(و) لا (بیع بشرط) عطف علی إلی النیروز یعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا یقضیہ العقد ولا یلائمہ وفیہ نفع لأحدھما أو) فیہ نفع ( لمبیع)''.

قال العلامۃ ابن عابدین - رحمہ اﷲ - (قولہ: لا یقتضیہ العقد) قال في البحر: معنی کون الشرط یقتضیہ العقد أن یجب بالعقد من غیر شرط، ومعنی کونہ ملائما أن یؤکد موجب العقد''. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع: ٥/٨٥، سعید)

(٧) ''وکذلک قال: إذا قبض الأجر فإنہ یملکہ''. (المحیط البرھاني، في الاستصناع: ٨/٢٥٥، المکتبۃ الغفاریۃ، کوئتہ)

''وأما حکم الاستصناع: فھو ثبوت الملک للمستصنع في العین المبیعۃ في الذمۃ وثبوت الملک للصانع في الثمن ملکا غیر لازم علی ما سنذکرہ''. (بدائع الصنائع، کتاب الاستصناع: ٤/٩٥، رشیدیۃ)

(٨) ''قال'': والبیع إلی النیروز والمہرجان وصوم النصاری وفطر الیہود إذا لم یعرف المتبایعان ذلک فاسد لجہالۃ الأجل وہي مفضیۃ إلی المنازعۃ في البیع''. (الھدایۃ، کتاب البیوع: ٣/٦١، شرکۃ علمیۃ)

''والخاصۃ معلومۃ الأجل في البیع المؤجل ثمنہ''. (رد المحتار، کتاب البیوع، مطلب في شرائط البیع ٥۔۔۔٤/٥٠٥، سعید)

(٩)''سئل الحانوتي عن بیع الذہب بالفلوس نسیئۃ، فأجاب: بأنہ یجوز إذا قبض أحد البدلین لما في البزازیۃ: لو اشتری مائۃ فلس بدرہم یکفي التقابض من أحد الجانبین، قال: ومثلہ ما لو باع فضۃ أو ذہبا بفلوس کما في البحر عن المحیط (رد المحتار، کتاب الربا: ٥/١٨٠، سعید) ''نصاب الذہب عشرون مثقالا والفضۃ مائتا درہم کل عشرۃ) دراہم (وزن سبعۃ مثاقیل''.۔۔۔۔۔(و) یضم (الذھب إلی الفضۃ) وعکسہ بجامع الثمنیۃ (قیمۃ) (قولہ: قیمۃ) أي من جھۃ القیمۃ، فمن لہ مائۃ درہم وخمسۃ مثاقیل قیمتہا مائۃ علیہ زکاتھا، خلافا لھما''. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٩٥۔۔۔۔٣٠٣، سعید)

(١١) (وشرط کمال النصاب في طرفي الحول فلا یضر نقصانہ بینھما.) (الدر المختار، کتاب الزکاۃ: ٢/٣٠٢، سعید)

(١٢) ''فإن باع فضۃ بفضۃ أو ذہبًا بذہب لا یجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفت في الجودۃ والصیاغۃ۔۔۔۔ولا بد من قبض العوضین قبل الافتراق''. (الہدایۃ، کتاب الصرف: ٣/١٠٦، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی