زکوٰۃ کی رقم ہسپتال کی ضروریات میں خرچ کرنا

Darul Ifta

زکوٰۃ کی رقم ہسپتال کی ضروریات میں خرچ کرنا

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کسی خیراتی ہسپتال میں زکوٰۃ کی رقم اس طرح استعمال کرنا جائز ہے کہ اس رقم سے دوائیاں خرید کر مریضوں کو مفت دی جائیں ، ہسپتال کا عملہ اور ڈاکٹروں کو اس سے تنخواہ اور دیگر ہسپتال کی ضروریات پوری کی جائیں ؟نیز ایسے ہسپتال کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں جو کہ مذکورہ بالا طریقہ سے اس میں استعمال ہوتی ہو؟

جواب

مذکورہ صورتوں میں صرف پہلی صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے، یعنی زکوٰۃ کی رقم سے دوائیاں خرید کر مستحق مریضوں کے درمیان مفت تقسیم کی جائیں، مالِ زکوٰۃ سے ہسپتال کی تعمیر اور اس کے لیے آلات خریدنا، ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملہ وغیرہ کو تنخواہیں دینا جائز نہیں،البتہ اگر زکوٰۃ کی رقم پہلے مستحق مریضوں کو دی جائے ، پھر مریض ہسپتال والوں کے واجبات اس سے ادا کریں، تو ہسپتال کے منتظمین جہاں چاہیں اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔
''یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک دون النصاب، وإن کان صحیحا مکتسبا؛ لأنہ فقیر''.(الفقہ الحنفي وأدلتہ: کتاب الزکاۃ، ١/٣٥١، إدارۃ القرآن کراچی)
''ویجوز دفعھا إلی من یملک أقل من النصاب وإن کاصحیحا مکتسبا''(الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف: ١/١٨٩، رشیدیۃ)
ویشترط ان یکون الصرف(تملیکا)لا اباحۃ کمامر(لا)یصرف(إلی بنائ)نحو(مسجد۔۔۔)وفي الرد: قولہ:(نحو مسجد)کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنھار والحج والجھاد وکل مالا تملیک فیہ الخ.(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الزکاۃ، باب المصرف:٢/٣٤٤،سیعد)
''والحیلۃ في الجواز فی ہذہ الأربعۃ أن یتصدق بمقدار زکاتہ علی فقیر ثم یأمرہ بعد ذلک بالصرف إلی ہذہ الوجوہ فیکون لصاحب المال ثواب الزکاۃ وللفقیر ثواب ہذہ القرب''البحرالرائق،کتاب الزکاۃ،باب المصرف: ٢/٤٢٤،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer