زکوٰۃ کی رقم علاج ،شادی یا حج کےلیے دینے کا حکم

Darul Ifta

زکوٰۃ کی رقم علاج ،شادی یا حج کےلیے دینے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مندرجہ ذیل کام اور ضرورت کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے، جب کہ ان تمام میں خرچ پچاس،ساٹھ ہزار روپے کا آتا ہے، کیا اس قدر رقم زکوٰۃ کے حساب میں ایک ہی شخص کو دینا مناسب ہے؟
١۔ کسی شخص کا دل کا آپریشن ہونا۔
٢۔ کسی شخص کا گردہ کا آپریشن ہونا۔
٣۔ کسی لڑکی کی شادی کا نتظام کرنا۔
٤۔کسی شخص کو حج پر بھیجنا۔

جواب

اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ کے پیسوں میں سے کسی کو اتنی زیادہ رقم دینا کہ وہ صاحبِ نصاب ہو جائے یا نصاب سے بھی زیادہ دیا جائے مکروہ ہے،لیکن اگر اس کی ضرورت جتنی رقم سے پوری ہوتی ہے وہ نصاب سے زیادہ ہے، جیسے مذکورہ چار صورتیں تو زیادہ رقم دینے میں کوئی حرج نہیں،لیکن خیال رہے کہ ان چار صورتوں میں یہ ضروری ہو گا کہ ضرورت مند کو یہ رقم دے دی جائے، بعد ازاں وہ اس سے خود ہسپتال کا بل ادا کرے یا شادی وحج کے اخراجات میں لگا دے، یا مالکانہ طور پر دینے کے بعد اس سے یہ رقم واپس لے کر اس کی ضروریات پوری کر دی جائیں،دونوں صورتیں جائز ہوں گی، اس کو مالک بنائے بغیر بل ادا کر دیا یا شادی کے انتظامات پر خرچ کیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی۔
وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیونا،أو کان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیہم لا یخص کلا،أو لا یفضل بعد دینہ نصاب، فلا یکرہ.(الدر المختار،کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٣٥٣، سعید)
ویشترط أن یکون الصرف (تملیکا) لا إباحۃ.(الدر المختار،کتاب الزکاۃ،باب المصرف: ٢/٣٤٤،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer