زکوٰۃ کی رقم امامت کے عوض امام کو دینا

Darul Ifta

زکوٰۃ کی رقم امامت کے عوض امام کو دینا

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا امام کے لیے زکوٰۃ وغیرہ لینا جائز ہے جو کہ درج ذیل طریقوں سے دی جاتی ہے ، کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہو گی اور نماز وغیرہ پر کچھ اثر پڑتا ہے؟
١۔ باقاعدہ امام کے ساتھ پہلے متعین کرتے ہیں کہ ہمارے محلے کی سالانہ زکوٰۃ اتنی بنتی ہے، لہٰذا آپ ہماری امامت کریں، یعنی اس طرح متعین کرتے ہیں کہ پھر محلے والوں پر اتنی مقدار زکوٰۃ کا دینا ضروری ہوتا ہے اور نہ دینے کی صورت میں امام ناراض ہوتا ہے۔
٢۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ابتدا میں متعین تو نہیں کرتے البتہ امام صاحب خود اپنے طو رپر اس محلے کی زکوٰۃ کا حساب لگا کر امام مقرر ہوتے ہےں یا ادھر ادھر سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس محلے کی زکوٰۃ کتنی ہوئی، پسند آئے تو امامت قبول کرتے ہیں ورنہ چھوڑ دیتے ہیں۔
٣۔کبھی تو تنخواہ بھی کچھ مقرر کر لیتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود تقرری کے وقت امام اور اہل محلہ کے ذہن میں زکوٰۃ بھی ہوتی ہے۔
پہلی اور دوسری صورت میں نہ زکوٰۃ کا بطورِ عوض تذکرہ ہوتا ہے اور نہ ہی الگ سے تنخواہ مقرر ہوتی ہے اور کبھی زکوٰۃ کا بطورِ عوض بھی تذکرہ ہوتا ہے،درج بالاصورتوں میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور عدمِ ادائیگی کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیجیے۔

جواب

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ مستحق کو زکوٰۃ کی رقم بلا کسی عوض دی جائے،لہٰذا مذکورہ صورتوں میں امام مسجدکو زکوٰۃ کی رقم بطورِ تنخواہ دینا جائز نہیں ہے، خواہ محلے والے خود زکوٰۃ کی رقم متعین کریں ،یا امام صاحب خود اپنے طور پر اس محلے کی زکوٰۃ کا حساب لگا کر خود امام بن جائیں، اس لیے کہ ”المعروف کالمشروط” کے قاعدے کی رُو سے یہ بھی زکوٰۃ کی رقم پر تقرری کے ضمن میں آتا ہے، بہرحال نمازوں پر اس کی وجہ سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
البتہ تیسری صورت میں اگر زکوٰۃ بطور اجرت کے نہ دی جائے اور نہ ہی امام صاحب اور اہلِ محلہ کے ذہن میں زکوٰۃ کی رقم پر امامت کا تقرر ہو، تو یہ صورت جائز ہو سکتی ہے، بشرطیکہ امام صاحب مستحقِ زکوٰۃ بھی ہوں۔
واضح رہے کہ اگر امام مسجد واقعتا مستحقِ زکوٰۃ ہے تو اس کو زکوٰۃ کی رقم بطور تنخواہ کے دینا جائز نہیں ہے، البتہ اس کی تنخواہ تھوڑی بہت الگ سے مقرر کر دی جائے اور زکوٰۃ کی رقم بطور مستحقِ زکوٰۃ ہونے کے بغیر کسی عوض کے ان کو دے دی جائے۔
ھي تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ہاشمي ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملّک من کل وجہ للّٰہ تعالی.''(الدر المختار،کتاب الزکاۃ: ٢/٢٥٦-٢٥٨،سعید)
قال تعالیٰ:(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء ِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا).(سورہ توبہ:٦٠)
''ولو نوی الزکاۃ بما یدفع المعلم إلی الخلیفۃ ولم یستأجرہ إن کان الخلیفۃ بحال لو لم یدفعہ لیعلم الصبیان أیضا أجزاہ وإلا فلا وکذا مایدفعہ إلی الخدم من الرجال والنساء في الأعیاد وغیرہا بنیۃ الزکاۃ کذا في معراج الدرایۃ''.(الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف:١/١٩٠،رشیدیۃ)
''ھي تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمي ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ للہ تعالی''. (الدر المختار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٥٦-٢٥٨، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer