زکوٰۃ سے متعلق متفرق مسائل

Darul Ifta

زکوٰۃ سے متعلق  متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کسی تنظیم یا ادارے کو اپنی زکوٰۃ کی رقم دے تو آیا اس ادارہ پر زکوٰۃ کی جمع شدہ رقوم کو سال کے اندر خرچ کرنا لازم ہے یا نہیں، یا زیادہ مدت کی بھی اجازت ہے؟ زیادہ مدت کی صورت میں زکوٰۃ دینے والے پر کوئی حرج آئے گا یا نہیں؟
(ب) زکوٰۃ کی رقم میں رقم کا مالک بنانا ضروری ہے ،کسی ادارے کو یہ رقم دینے میں یہ صورت کس طرح ممکن ہوگی؟
(ج) کیا زکاۃ کی رقم دینی ضروری ہے یا اس کے مساوی سامان دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی؟
(د) زکوٰۃ، خیرات وچرمہائے قربانی کے مصارف میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
(ر) اگر زکوٰۃ کی ساری رقم کسی ادارے کو دے دی جائے تو قریبی رشتہ دار جو کہ صحیح حق دار بھی ہیں، محروم ہو جاتے ہیں، اس صورت کے لیے بہتر طریقہ کیا ہے؟

جواب

جمع شدہ رقم کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں ہے، ادارہ یا تنظیم اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا ہے ،خواہ سال کے اندر جمع رکھے یا اس سے زیادہ مدت جمع رکھے او راس میں نقصان نہیں اور زکوٰۃ دینے والے پر کوئی حرج لازم نہیں آئے گا۔
(ب) زکوٰۃ میں فقراء کو مالک بنانا ضروری ہے، بدون اس کے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، اوراگر کسی ادارے کو زکوٰۃ دینا چاہے تو اس کی صورت یہ ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ روپیہ کسی غیر صاحب نصاب کی ملک کرا دیا جائے تاکہ زکوٰۃ ادا ہو جائے، پھر وہ شخص اپنی طرف سے اس ادارے کو وہ رقم دے دے۔
(ج) زکوٰۃ کے مساوی سامان دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
(د) زکوٰۃ وصدقہ الفطر اور قیمت چرم قربانی دونوں کا مصرف ایک ہے ، یعنی جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، ان کو صدقۃ الفطر اور چرم قربانی دینا بھی درست نہیں ہے۔
(ر) رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
''لأن الملک ما من شانہ أن یتصرف فیہ بوصف الاختصاص''(ردالمحتار،کتاب البیوع، مطلب في تعریف المال: ٤/٥٠٢،سعید)
ویشترط أن یکون الصرف تملیکا لا إباحۃ کما مر لا یصرف إلی بناء نحو مسجد و لا إلی کفن میت وقضاء دینہ۔۔۔وقدمنا أن الحیلۃ أن یتصدق علی الفقیر ثم یأمرہ بفعل ہذہ الأشیاء، وہل لہ أن یخالف أمرہ؟ لم أرہ، والظاہر:نعم.
وفي الرد قولہ: (نحو مسجد) کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ. زیلعی (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٣٤٤،٣٤٥، سعید)
''المال الذي تجب فیہ الزکاۃ إن أدی زکاتہ من خلاف جنسہ،أدی قدر قیمۃ الواجب إجماعا''.(الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، الفصل الثاني: ١/١٨٠، رشیدیۃ)
مصرف الزکاۃ والعشر۔۔۔ (ہو فقیر، وہو من لہ أدنی شيئ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غیر نام مستغرق في الحاجۃ (ومسکین من لا شیء لہ)علی المذہب.وفي الرد: وہو مصرف أیضا لصدقۃ الفطر والکفارۃ والنذر وغیر ذلک من الصدقات الواجبۃ کما في القہستانی.(الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٣٣٩، سعید)
إن الأفضل في الزکاۃ والفطرۃ، والنذور، الصرف أولا إلی الإخوۃ والأخوات الفقراء، ثم إلی أولادھم الفقراء ۔۔۔ ثم إلی ذوي الأرحام من بعدھم الفقراء.( الفقہ الحنفي وأدلتہ، کتاب الزکاۃ، المصرف: ١/٣٥٣، إدارۃ القرآن)
وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم '':الصدقۃ علی المسکین صدقۃ، وہی علی ذی الرحم ثنتان:صدقۃ وصلۃ.''(جامع الترمذي، أبواب الزکاۃ، باب ماجاء في الصدقۃ علی ذی قرابۃ: ١/١٤٢،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer