رمضان کی تئیسویں شب میں سورۃ عنکبوت اور سورۃروم پڑھنے کا اہتمام کرنا

رمضان کی تئیسویں شب میں سورۃ عنکبوت اور سورۃروم پڑھنے کا اہتمام کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ رمضان شریف کی۲۳ ویں رات کو تمام محلے والے چائے ،مٹھائی شرینی لے کر مسجد میں جمع ہو جاتے ہیں، وہ آدمی سورۃ عنکبوت اور سورۃ الروم پڑھتے ہیں،گزشتہ رمضان شریف میں چند حضرات نے ان لوگوں کو منع کیا او رکہا کہ یہ بدعت ہے اور اس کا ثبوت قرآن مجید اور حدیث اور فقہ میں نہیں ہے لہٰذا اسے چھوڑ دو، لوگوں نے ان حضرات کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ یہ ہمارے باپ دادا  کا رواج ہے اور ان حضرات کو بہت بُرا بھلا کہا، حتی کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ تو دین سے پھرے ہوئے ہیں، اب ذیل کے سوالات کے جوابات قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں مکمل ومدلل دے کر ہماری راہ نمائی فرمائیں کیوں کہ ہمارے گاؤں میں ان دو فریقیوں کے درمیان سخت مخالفت پیدا ہو گئی ہے۔

۱۔ کیا رمضان شریف کی۲۳ ویں رات کو سورہ عنکبوت اور سورۃ روم پڑھنا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یا صحابہ کرامؓ یا فقہ حنفی سے ثابت ہے اگر اس کا ثبوت نہیں ہے تو اسے بدعت کہنا جائز ہے یا نہیں؟

۲۔ کیا شریعت مطہرہ میں باپ دادا کے رواجوں پر چلنا جائز ہے ؟

۳۔ کیا بدعتی کی تائید جائز ہے، اگر ناجائزتو اسے بھی بدعتی کہا جائے گا،یا نہیں؟

جواب

تلاش بسیار کے باوجود ان کا ثبوت کسی معتبر کتاب میں نہیں ملا، چوں کہ محدثین نے یہ قاعدہ لکھا ہے کہ تدوین حدیث کے بعد کسی حدیث کا احادیث کی معتبر کتابوں میں نہ ہونا ،اس کے ناقابل اعتبار ہونے کی علامت ہے،لہٰذا اب اگر کوئی ان سورتوں میں سے کسی کو ان کے خاص وقت پر اور خاص دن میں اور خاص عبادت سمجھ کر پڑھے تو بدعت ہو گی،بدعتی کی تائید جائز نہیں،بلکہ احادیث میں وعیدیں آئی ہیں۔

''عن أبی قلابۃ ، قال : لا تجالسوا أہل الأہواء ، ولا تجادلوہم ، فإنی لا آمن من أن یغمسوکم فی ضلالتہم، أو یلبسوا علیکم ما کنتم تعرفون قال : وکان واللہ من الفقہاء ذوی الألباب.''

'' وعن العوام بن حوشب أنہ کان یقول لابنہ: یا عیسی اصلح قلبک وأقلل مالک، وکان یقول: واللہ لأن أری عیسی فی مجالس أھل البرابط والأشربۃ والباطل أحب إلی من ان أراہ یجالس أصحاب الخصومات، قال ابن وضاح: یعنی أھل البدع.'' (الإعتصام، باب فی ذم البدع وسوء منقلب أصحابھا،٦٥،٦٦، دار المعرفۃ، بیروت)

''وعن یحیی بن أبی کثیر۔ رحمہ اﷲ تعالی، قال: إذ القیت صاحب بدعۃ فی طریق، فخذ فی طریق آخر. (الإعتصام للعلامۃ للشاطبی، رحمہ اﷲ تعالی، ٦٦ دارالمعرفۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی