رضاعت کی وجہ سے علیحدگی کے بعد بچوں کی پرورش،اور عدت کا حکم

رضاعت کی وجہ سےعلیحدگی کے بعد بچوں کی پرورش،اورعدت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسائل کے بارے میں کہ

۱۔  بچوں کے متعلق شریعت کا حکم کیا ہوگا،اور ان کا حقدار کون ہوگا؟

۲۔ فرقت کے بعد لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے دوسری شادی کے لیے عدت کے متعلق کیا حکم ہے؟براہِ کرم شریعت کی روشنی میں مندرجہ بالا سوالات کے جوابات مع الدلائل عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔

جواب

۱۔واضح رہے کہ جب  کسی وجہ سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے،تو اگر  ان کی اولاد میں لڑکا ہو تو سات سال کی عمر تک، اور اگر لڑکی ہو تو نو سال کی عمر تک ان کی پرورش کا حق ماں کو ہوتا ہے،اس کے بعد بچے باپ  کے حوالے کئے جاتے ہیں،لہذا صورتِ مسئولہ میں وہ   بچہ جو سات سال سے کم اور بچی نو سال سے کم ہو ااس کی پرورش کا حق ماں کو ہوگا،اس کے بعد باپ کے سپرد کیے جائیں گے ۔

۲۔ جدائی  کے بعد عورت اپنی عدت( جو کہ حاملہ کے لئے وضع حمل اور غیر حاملہ کے لئے تین ماہواریاں ہے )  مکمل کر کے دوسری جگہ شادی  کرسکتی ہے،البتہ مرد  کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ،بلکہ علیحدگی کے فوراً بعدبھی  دوسری شادی کرسکتا ہے،ہاں اگر اس  بیوی  کی بہن،خالہ ،،پھوپھی،بھتیجی ،یا بھانجی  سے نکاح کرنا چاہتا ہے، تو اس کی عدت گزرنے کے بعد کرے۔

لما في الدرمع الرد:

(والام والجدة) لام أو لاب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.

"قوله(أي تبلغ)وبلوغها إما بالحيض أو الإنزال أو السن ط  قال في البحر لأنها بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى".(كتاب الطلاق،باب الحضانة، 3566،دارالفكر)

وفي العالمكيرية:

ولا يحل أن يتزوج أخت معتدته سواء كانت العدة عن طلاق رجعي أو بائن أو ثلاث أو عن نكاح فاسد أو عن شبهة وكما لا يجوز أن يتزوج أختها في عدتها فكذا لا يجوز أن يتزوج واحدة من ذوات المحارم التي لا يجوز الجمع بين اثنتين منهن اهـ (كتاب النكاح، الباب الرابع:في بيان المحرمات، 2/32،ط: رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/279،281