رجب کے کونڈوں کی شرعی حیثیت

رجب کے کونڈوں کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے بعض احباب بائیس رجب کو ایک رسم مناتے ہیں،جس کا نام ''کونڈے'' ہے اور یہ رسم حضرت جعفرصادقؒ  کی طرف منسوب کرتے ہیں، کیا اس رسم کی کوئی اصل ہے یا کسی کتاب سے ثابت ہے؟نیز یہ لوگ کھیر اور پوریاں بنا کر گھروں کے اندر کھلاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا یہ حضرت جعفرصادقؒ کی ولادت یا وفات کا دن ہے؟ اگر نہیں ہے، یا اس سے کوئی تعلق نہیں تو پھر یہ لوگ کیوں مناتے ہیں؟

جواب

اصل جواب سے قبل بطور تمہید یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات اور عالم گیر دین ہے، تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ رشدوہدایت ہے، ہرلحاظ سے کامل و مکمل ہے اور اس میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں اور اس کے کامل ہونے کا اعلان ﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے خود فرمایا ہے،قرآن مجید میں ہے: (الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً)

”آج میں پوراکرچکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین”۔
لیکن اس امت کا زمانہ انقلابات وتغیرات، فتنوں اور چیلنجوں سے بھرا ہوا زمانہ ہے، قیامت جوں جوں قریب ہوتی جائے گی ،حق کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے مزید فتنے اٹھ کھڑے ہوں گے، جن کے بارے میں پیشن گوئی جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی ہے۔

”حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم(ایک دن) مدینہ منورہ کے ایک بلند مکان کی(چھت) پرچڑھے اور پھر(صحابہ کرام) سے فرمایا: تم اس چیز کو دیکھ رہے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔''(اخرجہ البخاری رقم الحدیث:١٨٧٨، ومسلم، رقمہ:٢٨٨٥)
ان فتنوں میں سے ایک فتنہ روافض کا ہے کہ جنہوں نے خواہشات نفسانیہ میں مبتلا ہو کر اسلام کا ایسا نقشہ پیش کیا ہے کہ جس سے اسلام کی کھلی تحریف اور دشمنان اسلام کو غلط پروپیگنڈہ کا موقع ملتا ہے اور اسلام میں اپنی منشا کے مطابق ایسی بدعات و رسومات گھڑلی ہیں کہ ان کو سن کر آدمی حیران رہ جاتا ہے،ان کی گھڑی ہوئی رسومات میں سے ایک مروجہ رسم رجب کے کونڈوں کی ہے، جس کو سادہ لوح مسلمان دین کا جزء سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں، جب کہ یہ رسم بے اصل اور خلاف شرع ہے، بائیس رجب کو نہ تو حضرت جعفر صادقؒ  کی تاریخ پیدائش اور نہ تاریخ وفات، بلکہ ان کی ولادت ٨رمضان المبارک سنہ ٨٠ھ یا سنہ ٨٣ھ ہے جب کہ ان کی وفات شوال سنہ ١٤٨ھ میں ہوئی، درحقیقت بائیس رجب حضرت معاویہؓ کی تاریخ وفات ہے اور ان کی وفات کی خوشی میں یہ تقریب منائی جاتی ہے، محض پردہ پوشی کرکے حضرت جعفرصادقؒ کی طرف اس کی نسبت کردی گئی ہے،جب یہ رسم وجود میں آئی تو اس وقت مسلمانوں اور اہل اسلام کا غلبہ تھا، روافض علی الاعلان اس دن کو خوشی کا اظہار نہیں کرسکتے تھے، اس لیے انہوں نے اس بات کا اہتمام کیا کہ خفیہ طور پر ایک دوسرے کے ہاں جاکر مٹھائی اور شیرینی کھائی جائے اور خوشی کا اظہار کیا جائے، لیکن جب یہ راز طشت ازبام ہوا تو ایک غلط روایت گھڑ کراس کو حضرت جعفرصادقؒ کی طرف منسوب کیاگیا،بہرحال مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس لغو رسم سے دور رہیں اور دوسروں کو بھی اس کی حقیقت سے آگاہ کرکے اس سے بچانے کی کوشش کریں،اﷲ تبارک و تعالیٰ تمام مسلمانوں کو فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

'' وحدثنی عمر قال:حدثنا علی قال:بایع أھل الشام معاویۃ۔ رضی اﷲ عنہ۔ بالخلافۃ فی سنۃ:٣٧، فی ذی القعدہ۔۔۔۔ ومسلم لہ الأمر سنۃ: ٤١، لخمیس بقین من شھر ربیع الاول، فبایع الناس جمعیاً معاویۃ  رضی اﷲ عنہ فقیل، عام الجماعۃ، ومات بدمشق سنۃ:١٦ھ یوم الخمیس لثمان بقین من رجب.'' ( تاریخ ابن جدید الظبری، سنۃ ستین، وفاۃ معاویۃ بن ابی سفیان:٤/٢٣٩، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بیروت)

''(البدعۃ) ما أحدث علی خلاف الحق الملتقی عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبھۃ واستحسان وجعل دیناً تویماً وصراطاً مستقیماً. (ردالمحتار، باب الإمامۃ، ١/٥٦٠، سعید)

''قَال سَمِعْت أسَامَۃ رضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ أَشْرَف النَّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أُطُم مِن آطَام المَدینَۃ فَقَالَ ہَل تَرَون مَا أری إِنّی لَأرَی مَوَاقِعَ الْفِتَن خِلَال بُیُوتِکُم کَمَوَاقِع القطر.'' (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب أطام المدینۃ١/٢٥٢، قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی