دیہات میں عید کی نماز کا حکم

دیہات میں عید کی نماز کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ گرمیوں کے موسم میں بعض لوگ اپنے چرواہوں کو لے کر تین یا چار مہینہ دیہات( ایسی جگہ جہاں چراگاہ عام ہو اور وہ چراگاہ جنگل یا پہاڑوں میں ہو) میں  رہتے ہیں،پھر چار مہینہ بعد وہ سب لوگ سردیوں کے موسم میں دوبارہ آکر شہر میں رہتے ہیں اور سردیوں کے موسم میں اس دیہات میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ،کوئی بھی وہاں نہیں رہتا،اور وہاں سے شہر تک پیدل راستہ ڈھائی گھنٹہ کا ہے، دو سالوں سے مذکورہ دیہات میں نماز عید ادا کی جاتی ہے، ان دو سالوں سے پہلے لوگ شہر میں آکر نماز عید ادا کرتے تھے۔کیا مذکورہ دیہات میں نماز عید ادا کرنے سے نماز ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟

جواب

عید کی نماز کی شرائط بھی وہی ہیں جو کہ جمعہ کے قائم کرنے کے لیے ہیں، جن میں شہر کا ہونا بھی مستقل شرط ہے، اس بناء پر جس دیہات ، گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا، وہاں پر عید کی نماز کی ادائیگی بھی جائز نہیں ہے۔
لما في الدر المختار:
’’صلوٰۃ العید في القری تکرہ تحریماً‘‘. (کتاب الصلوٰۃ، باب العیدین:۳/۵۲،رشیدیۃ).
وفي البحر:
’’صلوٰۃ العید في الرساتیق تکرہ کراھۃ التحریم؛ لأنہ اشتغال بما لایصح، لأن المصر شرط الصحۃ‘‘. (کتاب الصلوٰۃ،باب الجمعۃ:۲/۲۷۷، رشیدیۃ).
وفي اعلاء السنن:
عن علي رضي اللہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلوٰۃ فطر ولا أضحٰی إلا في مصر جامع أو مدینۃ عظیمۃ‘‘. (أبواب العیدین، باب تکبیرات التشریق:۸/۱۲۸،إدارۃ القرآن).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

169/72
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی