دل میں خیال آنے سے طلاق کے وقوع کا حکم

Darul Ifta mix

دل میں خیال آنے سے طلاق کے وقوع کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک شخص عام دنوں میں ٹھیک رہتا ہے،البتہ کچھ دن ایسے آجاتے ہیں،کہ جب وہ ہر ہر بات میں طلاق کا سوچتا ہے،ان دنوں اٹھتے بیٹھتے اسے طلاق کی سوچیں آتی ہیں،البتہ اس شخص نے کبھی طلاق کے صریح یا کنائی الفاظ زبان سے ادا نہیں کیے،اور نہ ہی لکھے  ہیں،انہی دنوں میں اس کے ساتھ مندرجہ ذیل واقعات پیش آئے ہیں ،برائے مہربانی ان کا شرعی حکم بتادیں ۔

آج اس شخص نے اپنی بیوی کو واٹس ایپ میسج میں ایک ایموجی (تصویر )بھیجا،جو پستول سے گولیاں چلا رہا تھا،میسج بھیجتے وقت دل میں کچھ خیال نہیں تھا،البتہ میسج بھیجنے کے بعد اس کو ذہن میں خیال آیا کہ بندے (ایموجی) کی ہر گولی کے ساتھ بیوی کو طلاق ،یہ خیال میسج بھیجنے کے بعد آیالیکن بیوی نے  ابھی میسج کو دیکھا نہیں ،کیا اس خیال سے کچھ  ہوا ؟ اگر اس خیال کے ساتھ نیت بھی شامل ہوتی  تو کیا طلاق ہوجاتی؟ جب کہ میسج میں ایک ایموجی بھیجا جو پستول سے گولیاں چلا رہا تھا،نہ تو طلاق کے صریح الفاظ نہ ہی کنائی الفاظ ،البتہ سب دل میں سوچا، کیا یہ گولیاں چلاتا بندہ کسی بھی طرح طلاق کے کنائی معنی میں آتا ہے؟ اور جب میسج بھیجا تب کوئی نیت اور ارادہ بھی نہیں تھا،البتہ بعد میں یہ سوچ دل میں آئی ،بیوی نے میسج اس سوچ کے آنے کے بعد پڑھے،لیکن اس شخص نے بھیجے پہلے تھے،اگر اس خیال کے ساتھ نیت بھی شامل ہوتی تو کیا طلاق ہوجاتی؟ اب کیا اس سے طلاق ہوئی ؟ راہنمائی فرمائیں ۔

جواب 

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی کو طلاق نہیں ہوئی،کیونکہ طلاق کا تعلق زبان سے ہے،دل میں خیال آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی،اگرچہ اس کے ساتھ نیت بھی شامل ہو ۔

لما في الأشباه:

وأما الطلاق والعتاق فلايقعان  بالنية ، بل لابد من اللفظ . (القاعدة الثانية :42،ط: رشيدية)

وفي البدائع:

وأما بيان ركن الطلاق فركن الطلاق هو اللفظ الذى جعل دلالة على معنى الطلاق لغة.(كتاب الطلاق،فصل في ركن الطلاق،4214،ط:رشيدية فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 172/286