دلال کی اجرت متعین کرنا ضروری ہے

دلال کی اجرت متعین کرنا ضروری ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید، عمرو کو ایک بکری فروخت کرنے لیے دیتا ہے  اور کہتا ہے کہ بکری کی قیمت میں سے ایک ہزار (۱۰۰۰) مجھے دینے ہیں اگر زیادہ میں فروخت کی تو اس سے  جتنی زیادتی ہوگی وہ تمہاری ہے، اب یہ معاملہ دلالی میں آئے گا ،یا وکالت میں؟ اور یہ پیسے عمر و کے لیے جائز ہیں یا نہیں ؟ہماری رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

مذکورہ معاملہ شرعا درست نہیں ، کیونکہ اس میں اجرت مجہول ہے ، جواز کی صور ت یہ ہے کہ زید عمرو کے لیے اجرت طے کرلے،یا عمرو، زید سے بکری مثلا دس ہزا ر روپے میں خرید لے ، اور آگے جتنی رقم کی چاہے فروخت کرے ، زید کو صرف دس ہزار روپے دینے کا پابند ہو گا ، اور یہ معاملہ پہلی صورت میں دلالی کا ہوگا اور دوسری صورت میں بیع کا ہوگا

لما فی التتارخانیہ :

"وفی العیون "رجل دفع الی ثوبا وقال لہ : بعہ بعشرۃ فما زاد فھو بینی وبینک ، وقال ابو یوسف : ان باعہ بعشرۃ او لم یبعہ  فلا اجر لہ،وان تعب فی ذالک ، ولو باعہ باثنی عشراواکثراواقل فلہ اجر مثل عملہ لا یجاوز درھما ، فقال محمد : اری لہ اجر مثل عملہ ، وفی الظہیریۃ : بالغا ما بلغ ، وان لم یبع اذا تعب ، والفتوی علی قول ابی یوسف "(کتاب الاجارۃ،۱۵/۱۳۶،۱۳۷،ط:فاروقیہ کوئتہ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر :170/159