خواتین کا نوکری اور گھریلو اخراجات میں معاونت کرنا

Darul Ifta mix

خواتین کا نوکری اور گھریلو اخراجات میں معاونت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں:
1.. اسلامی نقطہ نظر سے گھر کے روز مرہ کے اخراجات کی ذمہ داری کس کی ہے؟
 2.. جوعورتیں نوکری پیشہ ہیں اور اپنے گھر کے مالی اخراجات میں تعاون کرتی ہیں اسلام ان کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟
 3.. عورت کی کمائی پر کس کا حق ہے ؟ اور عورت اپنی کمائی کہاں خرچ کر سکتی ہے؟
 4..  اگر کوئی عورت گھرکے کام کاج کے بجائے نوکری کرنا چاہے تو کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ اگر ہاں تو کن شرائط پر؟
 5.. عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ معاشرہ عورت کی کمائی کو حرام اور بے برکت تصور کرتا ہے ، آپ اس بار ے میں کیا کہتے ہیں؟
 6.. جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد عورت کے وقت پر اس کی شوہر کا حق ہے تو اگر وہ اس وقت میں نوکری کرتی ہے تو جو پیسے وہ کمائے گی کیا ان پر اس کے شوہر کا حق ہو گا؟
7.. آپ کے خیال میں معاشرے کی فلاح کے لیے مرد اور عورت کے کمانے کی تفریق کو ختم کرنے کی کس حد تک گنجائش ہے؟
        لہٰذا قرآن وحدیث کی روشنی میں حوالاجات کے ساتھ نمبر وار وضاحت فرمائیں۔ شکریہ

جواب 

دین ومذہب سے بیزار، مغرب زدہ مسلمانوں کا روشن خیال طبقہ ایک عرصے سے اس بات کا خواہاں نظر آتا ہے کہ تمام شعبہائے زندگی میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہو، اہل مغرب تو آزاد معاشرے کے دل دادے اور نفس وشیطان کے محکوم ہونے کی بنا پر اس سے بھی آگے کی سوچیں تو بعید نہیں ، لیکن مسلمانوں کا خواتین کو گھروں سے نکال کر بازاروں ، مارکیٹوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں لاکھڑا کرنا قابلِ صد افسوس ہے، پھر اس پر قیامت کہ بعید از قیاس تاویلیں کرکے ہر باطل نظریے کو قرآن وحدیث اور صحابہ کے واقعات سے ثابت کرنے کی دوڑ دھوپ بھی ساتھ رہتی ہے، نبّاضِ شریعت، علمائے کرام اور فقہائے امت کی تشریحات کو ہر زہ سرائی قرار دے کر پکا سچا مسلمان ہونے کے دعووں کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔
عورت کو الله رب العزت نے گھر کی زینت، امورِ خانہ داری کی اصلاح وخوش اسلوبی، والدین اور شوہر کی خدمت ، اولاد کی صحیح پرورش اور دینی تربیت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہی اس کی پیدائش کا اصل مقصد ہے۔

تجربہ اس کا شاہد ہے کہ عورت کے زیادہ دیر گھر سے باہر رہنے کا نتیجہ جہاں خانگی امور میں بد نظمی ، گھریلو ناچاقی اور اولاد کی صحیح تربیت نہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے، وہیں معاشرے کے بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے، ان سب کے باوجود بھی عورت کے لیے نوکری وغیرہ کی تجویز گویا سببِ مرض ہی کو دوا تجویز کرنا ہے #
        کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
        مرد بیکار وزَن تہی آغوش
مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے بالترتیب جوابات درج ذیل ہیں :
1..گھریلو اخراجات کی ذمہ داری مرد پر ہے۔
2.. اگر شدید ضرورت نہ ہو تو اسلام اس کی اجاز ت نہیں دیتا، لیکن ضرورتِ شدیدہ کی تعیین علمائے کرام کی راہ نمائی کے بغیر ہر خاص وعام کے لیے ممکن نہیں۔
3.. عورت کی کمائی پر عورت ہی کا حق ہے ، جائز کاموں میں جہاں چاہے خرچ کرسکتی ہے۔
4.. اگر گھریلو اخراجات عورت کی نوکری کے بغیر بھی چل رہے ہوں تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، البتہ علمائے کرام سے استفسار کے بعد اگر عورت کے لیے کسبِ معاش کی گنجائش نکلتی ہو تو سلائی، کڑھائی یا اس جیسے اُن کاموں ہی کو اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جنہیں گھر پر رہ کر کرنا ممکن ہو ، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو اور عورت کے لیے گھر سے نکلنا ناگزیر ہو تو سر سے پاؤں تک پردے کا ایسا اہتمام ضروری ہے کہ غیر محرم کی نظر اس کے کسی عضو پر نہ پڑے اور نہ ہی اس کے بدن کی ساخت معلوم ہو ۔
5.. جائز کاموں میں عورت کی کمائی حرام تو نہیں تاہم بلا ضرورت ِ شدیدہ نوکری جائز بھی نہیں اور جو چیز ناجائز ذریعے سے حاصل ہو وہ بے برکتی کا سبب تو ہو گی ، لیکن کمائی کا راستہ انتہائی ضرورت کی وجہ سے اختیار کیا گیا ہو تو بے برکتی کی کوئی وجہ نہیں۔
6.. نہیں، ان پیسوں پر عورت ہی کا حق ہے اور وہ ان کی مالکہ ہے۔
7.. اسلام اس تفریق کو ختم کرنے کی قطعاً حوصلہ افزائی نہیں کرتا، بلکہ اس تفریق کو ختم کرنا بہت سی عائلی خرابیوں او رمعاشرتی بگاڑ کا بڑا سبب ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی