حکومت کی طرف سے ملنے والے فنڈز میں میراث کا حکم

حکومت کی طرف سے ملنے والے فنڈز میں میراث کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو رقم پراونڈنٹ فنڈ میں ملتی ہیں جو کہ ملازم کی تنخواہ میں کٹوتی کے علاوہ جو حکومت کی طرف سے تبرع ہوتا ہے، کیا یہ زائد رقم میت کے ترکہ میں شامل ہوں گی یا نہیں؟ اگر شامل ہوں گی تو اس کی علت کیا ہے؟ قرآن و سنت کے مطابق تسلی بخش جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اس شخص کی وفات کے بعد پراونڈنٹ فنڈ کے علاوہ حکومت کی طرف سے جو تبرع ہوتا ہے اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، لہٰذا حکومت جس کو چاہے جتنا چاہے اس کو دے سکتی ہے۔

لما في القواعد الفقهیة:

التركة: ماتركه الإنسان عند موته صافيا خاليًا عن حق الغير.(ص: 143، مكتبه البشرى)

وفي التاتارخانية:

فنقول لا شك أن أعيان الأموال يجري فيها الإرث وأما الحقوق: فمنها ما لا يجري فيه الإرث.(كتاب الفرائض، الفصل الثالث: 30، مكتبة فاروقيه)

وفي المحيط البرهاني:

فنقول لا شك أن أعيان الأموال يجري فيها الإرث. وأما الحقوق: فمنها ما لا يجري فيه الإرث، نحو حق الشفعة وخيار الشرط وحد القذف. (كتاب الفرائض، الفصل الثالث: 23/281، بيروت).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 155/164