کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ حرام ذریعہ سے حاصل کئے ہوئے مال میں اپنی بیوی کا مہر ادا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور اس کا استعمال بیوی کے لیے کیسا ہے؟ او ر اگر قرض ادا کرے تو ادا ہوگا کہ نہیں؟ نیز قرض خواہ کے لیے اس کا استعمال کیسا ہے؟
اگر اجرت میں دینا چاہے تو مزدور یا مالک مکان کو اس مال کا لینا جائز ہے یا نہیں؟ ان تمام صورتوں میں بیوی، قرض خواہ، مقروض، احباب، مزدور کو یہ معلوم نہیں کہ یہ مال حرام ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہے، حتی کہ ان کا ذہن اس جانب جاتا بھی نہیں کہ اس کے حصول کا ذریعہ غلط ہوسکتا ہے۔ازراہ کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں اس مال کا حاصل کرنا گناہ ہے، اور وہ مال حرام ہوگا، مگر مصارف مذکورہ میں ان کا خرچ کرنا جائز ہے، قرض، اجرت اور مہر وغیرہ سب حقوق اس سے ادا ہوسکتے ہیں، مگر اتنی مقدار رقم کی فی سبیل اللہ بغیر نیت صدقہ وثوا ب کے غریب ومسکین کو دیدینا ضروری ہے، ورنہ گناہگار رہے گا۔’’لأن الدراھم والدنانیر لا یتعینان بالتعیین وسبیلہ التصدق‘‘
،ہاں اگر مال حرام نقدی شکل میں نہ ہو، بلکہ کسی جنسی شکل میں ہو، جس طرح کپڑا یا سامان وغیرہ، تو ان کا خرچ کرنا بالکل جائز نہیں ہے،’’ لأنھا تتعین بالتعیین‘‘.
۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:01/80