حج فرض ہوجانے کے بعد رقم کسی اورجگہ خرچ کرنا

حج فرض ہوجانے کے بعد رقم کسی  اورجگہ خرچ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے حج کے لیے فارم بھرا اور رقم بینک میں داخل کرائی لیکن قرعہ اندازی میں اس کا نام نہیں آیا اور وہ حج کے لیے نہ جاسکا اور جب اس کو وہ پیسے ملے تو اس نے وہ اپنی ضروریات میں خرچ کیے اب اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ حج پر جاسکے تو کیا اس پر حج فرض ہے یا نہیں قرآن وحدیث وقفہ حنفی کے مطابق جواب دے کر ثواب داریں حاصل کریں۔

جواب

صورت مسؤلہ میں جب زید نے حج کے لیے پیسے جمع کیے اور قرعہ اندازی میں نام نہیں آیا اس کے بعد وہ حج کے پیسے اپنی ضروریات میں خرچ کرے اور فی الحال اس کے ہاتھ میں پیسے موجود نہیں ہیں،مگر شریعت مقدسہ کی رو سے زید پر حج فرض ہے،کیوں کہ پیسہ خرچ کر لینے سے حج فرض ساقط نہیں ہوتا، اگر حج کیے بغیر  مر گیا تو وہ شخص گنہگار ہو گا۔

"(وأما فرضيته) فالحج فريضة محكمة ثبتت فرضيتها بدلائل مقطوعة حتى يكفر جاحدها، وأن لايجب في العمر إلا مرة، كذا في محيط السرخسي، وهو فرض على الفور، وهو الأصح فلايباح له التأخير بعد الإمكان إلى العام الثاني، كذا في خزانة المفتين. فإذا أخره، وأدى بعد ذلك وقع أداء .... ولو حج في آخر عمره فليس عليه الإثم بالإجماع، ولو مات، ولم يحج أثم بالإجماع، كذا في التبيين ...بخلاف ما لو ملكه مسلمًا فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينًا عليه، كذا في فتح القدير." (الفتاوى الهندية:1/ 216).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی