حج تمتع میں طواف زیارت سے پہلے سعی کرنا

حج تمتع میں طواف زیارت سے پہلے سعی کرنے کاحکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
۱……حج تمتع میں طواف زیارت سے پہلے سعی کرنا کیسا ہے؟
۲……میں نے 2012ء میں حج قران ادا کیا تھا،عمرہ(طواف اور سعی) کر کے اسی احرام میں مغرب کے وقت منی چلا گیا تھا، لیکن 10 ذی الحجہ کو طواف کیا سعی نہیں کی، تو کیا شریعت کی رو سے میرا یہ عمل درست تھا؟

جواب

واضح رہے کہ حج تمتع میں اگر کوئی شخص حج کا احرام باندھ کر نفلی طواف کے بعد سعی کرلے، تو اس پر طواف زیارت کے بعد سعی لازم نہیں ہوگی، لیکن اگر حج کا احرام باندھ کر نفلی طواف کے بعد سعی نہیں کی اور نہ ہی طواف زیارت کے بعد سعی کی، تو ایسے شخص پر دم لازم ہوگا۔

لما في التنویر مع الدر:
’’ویحج کالمفرد لکنہ یرمل في طواف الزیارۃ ویسعی بعدہ إن لم یکن قدمھما بعد الإحرام‘‘.
قال إبن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
’’(قولہ: إن لم یکن قدمھما) أي:عقب تطوع بعد الإحرام‘‘.(کتاب الحج، باب التمتع:۳/۶۴۴،رشیدیۃ).
وفي البحر:
’’(ثم اخرج إلی الصفا وقم علیہ مستقبل البیت مکبرا مھللا مصلیا علی النبي داعیا ربک بحاجتک) لما ثبت في حدیث جابر الطویل وقد قدمنا أن ھذا السعي واجب ولیس برکن للحدیث اسعوا فإن اللہ کتب علیکم السعي ،قالہ علیہ السلام :حین کان یطوف بین الصفا والمروۃ فإنہ ظني وبمثلہ لا یثبت الرکن لأنہ إنما یثبت عندنا بدلیل مقطوع فما في الھدایۃ من تأویلہ بمعنی کتب استحبابا فمناف لمطلوبہ لأنہ الوجوب وجمیع السبعۃ الأشواط واجب.....وبھذا علم أن تأخیر السعي عن الطواف واجب وإلی أن السعي لایجب بعد الطواف فورا بل لو أتی بہ بعد زمان.....وفي التحفۃ :الأفضل للحجاج أن لایسعی بعد طواف القدوم لأن السعي واجب لایلیق أن یکون تبعا للسنۃ بل یؤخرہ إلی طواف الزیارۃ لأنہ رکن واللائق للواجب أن یکون تبعا للفرض‘‘.(کتاب الحج، باب الإحرام:۲/۵۸۲،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:111-112/ 179

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی