حجاج کا اسپانسر شپ اسکیم کے تحت سہولیات لینا

حجاج کا اسپانسر شپ اسکیم سے سہولیات لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ حکومت پاکستان عازمین حج کے لیے ریگولر او راسپانسر شپ دو اسکیموں کا اعلان کرتی ہے،ریگولر اسکیم کے تحت جانے والوں کو حکومت پاکستان کی فراہم کردہ رہائش، ٹرانسپورٹ لینا ضروری ہے،گزشتہ سال کے تجربہ اور اخبارات کے ذریعہ حاجیوں کے تاثرات سے واضح ہوا ہے کہ اس سے حجاج کو بہت زیادہ پریشانی ہوئی ہے،جب کہ اسپانسر شپ اسکیم کے تحت اس معاملے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی،حجاج کرام اپنی خواہش کے مطابق جگہ اور ٹرانسپورٹ کا انتخاب کرسکتے ہیں،نیز اسپانسر شپ کے تحت تعداد یا گروپ بندی پر کوئی پابندی نہیں،جب کہ ریگولر اسکیم میں تعداد اور (50افراد کا)گروپ بنانے کی پابندی ہے، انہی وجوہات کے تحت زیادہ تر عازمین حج کا رحجان اسپانسر شپ اسکیم کی طرف ہے،جب کہ یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے ،جن کے عزیز واقارب میں سے کوئی بیرون ملک مقیم ہو اور وہاں سے زرمبادلہ کا ڈرافٹ بھیجے،لہٰذا اکثر لوگ حوالہ والوں کے ذریعے ، باہر سے پیسہ منگوا کر اس اسکیم کے تحت سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اب دریافت امر یہ ہے کہ ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ جب گورنمنٹ نے اسپانسر شپ اسکیم کے تحت حج کی سہولت، صرف ان عازمین حج کے لیے فراہم کی ہے جن کے خاندان کا کوئی فرد بیرون ملک مقیم ہو اور وہ انہیں وہاں سے زر مبادلہ کا ڈرافٹ بھیجے تو اب دوسرے لوگوں کے لیے جن میں یہ شرط نہیں پائی جاتی درست نہیں ہو گا کہ وہ حوالہ والوں کے ذریعہ باہر سے رقم منگوا کر اس اسکیم کی سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں،اگر وہ ایسا کریں گے تو غلط بیانی کے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے۔

قال ابن عابدین رحمہ اللہ، قولہ: أمر السلطان إنما ینفذ أی یتبع ولا تجوز مخالفتہ ۔۔۔۔التعلیل بوجوب طاعۃ ولی الأمر "وفی ط "عن الحموی أن صاحب البحر ذکر ناقلا عن أئمتنا أن طاعۃ الإمام فی غیر معصیۃ واجبۃ.( رد المحتار، مطلب، طاعۃ الامۃ واجبۃ ٥/٤٢٢، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی