حافظ قرآن کے لیے چندہ جمع کرنا

حافظ قرآن کے لیے چندہ جمع کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسجد کاا مام حافظ ہے اور وہ رمضان میں قرآن سناتا ہے،آخر رمضان میں مسجد میں اعلان کیا جاتا ہے، کہ امام صاحب کے لیے چندہ وصول کیا جائے ،ایسے ہی اعلان کرکے پیسہ جمع کیا جاتا ہے،اب امام صاحب کے لیے یہ پیسہ لینا جائز ہے ،یا نہیں؟ دلیل سے واضح فرمائیں ۔

جواب

وجوہ ذیل کی بناء  پر حافظ امام کے لیے یہ عطیات خواہ از قسم نقد ہو یا بصورت لباس جائز نہیں:

۱۔عموماً  چندہ وصول کرنے میں ایسے طریقے اختیا رکیے جاتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس لیے یہ وصول کردہ رقم لیناجائز نہیں ۔

۲۔ چندہ دینے والے میں بینک اور بیمہ کے ملازمین اور دوسرے ذرائع آمدنی رکھنے والے بھی ہوتے ہیں ،اس لیے بہتر نہیں۔

۳۔ یہ رسم عام ہونے کی وجہ سے ایک قسم کا معاوضہ ہے۔

۴۔اگر امام واقعتا اس کو معاوضہ نہ سمجھے تب بھی اشراف نفس کی وجہ سے حرام ہے۔

۵۔ اگر بالفرض اشراف نفس نہ ہو، تب بھی اس سے غلط رسم کی تائید ہوتی ہے، البتہ مسجد میں مسلمانوں کے عمومی امور خیر کے لیے چندہ کرنا جائز ہے۔ (احسن الفتاوی، ٣/٥١٦)

''لمافی الشامیۃ:قولہ( وَلَا لِأجل الطَّاعَاتِ) الْأَصْلُ أَنَّ کُلَّ طَاعَۃٍ یَخْتَصُّ بِہَا الْمُسْلِمُ لَا یَجوز الِاسْتِئْجَار عَلَیْہَا عنْدَنَا لقولہ - عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ - اقْرَء ُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَأْکُلُوا بہ وفی آخرِ ما عَہِد رسُولُ اللَّہِ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - إلَی عمرو بْن الْعَاص وَإِن اُتُّخِذْت مُؤَذِّنًا فَلا تَأْخُذ عَلَی الْأَذان أَجْرا وَلِأَنّ الْقُرْبَۃَ مَتَی حَصَلَت وَقَعَت عَلَی الْعَامِل وَلِہَذَا تَتَعَیَّنُ أَہْلِیَّتُہ، فَلَا یَجُوز لَہ أَخْذ الْأُجْرَۃ مِن غَیْرہ کَمَا فِی الصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ ہِدَایَۃٌ.'' (رد المحتار، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ٩/٢٣، حقانیہ)

'' وذکرت أیضاً أن الناس الیوم لا یدفعون المال، والمال فی مقابلۃ ذلک العمل وعلی ظن وصول ثوابہ الیھم لا علی أنہ تبرع وصلۃ لذلک العامل سواء عمل أولم یعمل وقد صرح ائمتنا وغیرہم بأن القاری للدنیا لاثواب لہ والآخذ والمعطی آثمان. (مجموعۃ رسائل ابن عابدین،۱/۱۷۱، سہیل اکیدیمی، لاہور).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی