جہاں حدیث کی کتابیں ہوں،وہاں کرسی پر بیٹھنے کا حکم؟

جہاں حدیث کی کتابیں ہوں، وہاں کرسی پر بیٹھنے کا حکم؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کمرہ جماعت میں اساتذہ کرسی پر بیٹھتے ہیں اور نیچے بیٹھتے ہیں، ان کے پاس حدیث وفقہ کی کتابیں بھی رکھی جاتی ہیں چوں کہ کرسی کے مقابلے میں نیچے ہوتی ہیں، آیا اس طرح اساتذہ کے کرسیوں پر بیٹھنے سے کتابوں کی بے ادبی تو نہیں؟ یا اسی طرح دار التصنیف میں کچھ علمائے کرام نیچے بیٹھتے ہوں اور کچھ علمائے کرام کرسیوں پر بیٹھتے ہوں اور نیچے بیٹھنے والے علمائے کرام کے پاس حدیث وفقہ یا تفسیر کی کتابیں رکھی ہوتی ہوں، تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص کرسی پر اس طرح بیٹھے کہ اس کے قریب اس کی نشست سے نیچے حدیث و فقہ یا تفسیر کی کتابیں رکھی ہوں اور لوگ اس طرح بیٹھنے کو قریب سمجھ کر عرف میں برا سمجھتے ہوں تو یہ ادب کے خلاف ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے، البتہ اگر زمین پر بیٹھنے کے لیے کوئی عذر ہو تو پھر کرسی پر اس طرح بیٹھنے میں گنجائش ہے۔

لما في الهندية:

«وإذا كتب اسم الله تعالى على كاغذ ووضع تحت طنفسة يجلسون عليها فقد قيل: يكره، وقيل: لا يكره». (كتاب الحظر والإباحة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف إلخ: 9/111، رشيدية)

وفي التاتارخانية:

«ويكره مد الرجلين إلى القبلة في النوم وغيره عمدًا وكذلك مد الرجلين إلى المصحف، وإلى كتب الفقه». (كتاب الكراهية، الفصل: 5 في المسجد والقبلة وغيرها: 18/69، فاروقية)

وفي الهندية:

«رجل أراد أن يقرأ القرآن، فينبغي أن يكون على أحسن أحواله، يلبس صالح ثيابه، ويتعمّم، ويستقبل القبلة». (كتاب الكراهية، الباب الرابع: 5/365، دار الفكر).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/80